ایک ایسا اسپتال جو جامعہ کے زخمیوں کے لئے ’رحمت‘ بن گیا۔۔۔
یہ ایک ایسا وقت تھا جب کوئی ان معصوم طلبا کے زخموں پر مرہم رکھنے کو تیار نہیں تھا۔ اس وقت یہی الشفاء اسپتال جامعہ کے بچوں کے لیے مہربان مسیحا بن گیا۔
افروز عالم ساحل
ایک ایسے دور میں جب اسپتال پوری طرح کارپوریٹ ہاؤس بن گئے ہیں جن کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہے، اور ڈاکٹر مسیحا کے بجائے ، ڈاکو بن چکے ہیں جن کا کام علاج کرنے سے زیادہ پریشان حال اور مصیبت کی ماری خلق خدا کی جیب پر ڈاکہ ڈالنا ہے ، ایسے وقت میں اُن اداروں کا دم بسا غنیمت ہے جن کا نصب العین انسانوں کی خدمت کرنا ہے۔
یہ کہانی جامعہ نگر میں واقع ابوالفضل انکلیو کے ’الشفاء ملٹی اسپیشلٹی اسپتال‘ کی ہے۔ گذشتہ 15 دسمبر کو دلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں دلی پولیس کی وحشیانہ کارروائی میں سیکڑوں کی تعداد میں طلبا و طالبات زخمی ہوئے تھے۔ یہ ایک ایسا وقت تھا جب کوئی ان معصوم طلبا کے زخموں پر مرہم رکھنے کو تیار نہیں تھا۔ اس وقت یہی الشفاء اسپتال جامعہ کے بچوں کے لیے مہربان مسیحا بن گیا۔ الشفاء کا یہ قدم اسپتال کے زندہ ہونے اور انسانیت کی خدمت کی ایک روشن مثال ہے۔
’الشفاء ملٹی اسپیشلٹی اسپتال‘ کے پیشنٹ ویلفیئر کورآڈینیٹر جناب انعام الحسن نے ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں بتایا کہ 13 دسمبر کو جامعہ کے اساتذہ اور طلبا نے شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں مظاہرہ کیا۔ اس دن بھی پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا۔ اس لاٹھی چارج کے بعد چھ سات طلبا خود علاج کے لیے آئے۔ اسی دن ہمارے اسپتال کے ڈائریکٹر عبدالنظر صاحب نے ہمیں بلایا اور ہمیں ہدایت دی کہ آئندہ اگر اس طرح کے معاملے آتے ہیں تو ان کو تمام سہولتیں مہیا کرانا ہیں اور ان کا علاج مفت کرنا ہے ۔
انعام الحسن مزید کہتے ہیں کہ ’’15 دسمبر کو جیسے ہی جامعہ سے آگے کے علاقے میں پولیس نے لاٹھی چارج کیا، اس کی خبر اسپتال کو مل گئی۔ 5.30 بجے کے بعد کئی طلبا خود یہاں پہنچنے شروع ہوگئے۔ ہم نے بغیر کسی تاخیر کے ان کا علاج شروع کر دیا۔ ان کے علاج کی دیکھ ریکھ خود ڈائریکٹر صاحب کر رہے تھے۔ جب زخمی طلبا کی تعداد بڑھنے لگی تو ہم نے اپنے تمام وارڈوں میں چند افراد کو چھوڑ کر تمام اسٹاف کو بلا لیا۔ اتوار ہونے کی وجہ سے بہت سا عملہ اور ڈاکٹر چھٹی پر بھی تھے، لیکن ڈائریکٹر صاحب نے سب کو اطلاع دی اور جلد سے جلد اسپتال پہنچنے کی گذارش کی۔ واٹس ایپ کے ذریعے دوسرے ڈاکٹروں سے مدد کی درخواست کی گئی۔ علاقے میں جگہ جگہ پولیس کے ذریعے راستہ بند کیے جانے کی وجہ سے ہمارے کئی ڈاکٹروںکو پیدل ہی بہت سی مشکلات کاسامنا کرتے ہوئے اسپتال پہنچنا پڑا۔ کئی ڈاکٹر سوشل میڈیا پر یہ خبر دیکھ کر خود اسپتال آگئے تھے۔ بعض دوسرے اسپتالوں سے بھی ڈاکٹر بلائے گئے۔ آل انڈیا میڈیل انسٹی ٹیوٹ (ایمس)، رام مونہر لوہیا اسپتال اور لیڈی ہارڈنگ اسپتال سے پانچ اور قر یب کے نجی اسپتالوں سے دو ڈاکٹروں نے رضاکارانہ طور پر تعاون کیا۔‘‘
انعام الحسن بتاتے ہیں ’’ایمرجنسی اور پورے اسپتال میں ہمارے بیڈ کم پڑ گئے تھے، لیکن ہم نے کسی کو انکار نہیں کیا۔ بس دو معاملوں میں ایمس ٹراما سنٹر ریفر کیا گیا، بلکہ ان دونوں کو بھی ہم نے اپنی ایمبولنس سے وہاں بھیجا بھی۔ ان دونوں کے آنکھوں پر چوٹ لگی تھی۔‘‘
’’پولیس کی جارحیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے الشفاء اسپتال کی ایمبولینس کو بھی نہیں بخشا۔ ایمبولینس ڈرائیور محمد زاہد بتاتے ہیں کہ اسپتال سے مجھے اور میرے ساتھ ایک ساتھی کو جامعہ بھیجا گیا۔ ہم جیسے ہی جامعہ پہنچے، پولیس والوں نے ہمیں گھیر لیا اور پوچھنے لگے کہ یہاں کیوں آئے ہو؟ جب ہم نے بتایا کہ ہم زخمی طلبا کو لینے آئے ہیں تو انہوں نے ہمیں گالی دے کر کہا کہ یہاں سے جلدی واپس چلے جاؤ۔ پھر وہ ایمبولینس پر ڈنڈا مارنے لگے۔ ایمبولینس کے تین شیشے ٹوٹ گئے۔ ان کی کئی لاٹھیاں ہم پر بھی چلی۔ ایسے میں ہم جان بچا کر وہاں سے خالی ہاتھ واپس آگئے۔ لیکن واپس آنے کے بعد اسپتال سے ہمیں پھر جانے کو کہا گیا، تو ہم دوبارہ گئے اور کچھ زخمی بچوں کو لے کر آئے۔ چونکہ زخمی بچوں کی تعداد زیادہ تھی اس لیے ہمیں اپنی دوسری ایمبولینس بھی بھیجنا پڑی۔‘‘
اسپتال انتظامیہ سے ملی معلومات کے مطابق 15 دسمبر کی رات کو 100 سے زائد طلبا کا علاج کیا گیا ، اور اب تک یہ تعداد ڈیڑھ سو سے تجاوز کرچکی ہے۔ کسی کے سر پر چوٹ تھی، تو کسی کو اندرونی چوٹ لگی تھی۔ 20 لوگوں کے ہاتھ پیر ٹوٹے ہوئے تھے۔ ان کے سی ٹی اسکین سے لے کر پلاسٹر اور دوا ئیں سب کچھ مفت دیا گیا۔ دو طلبا شدید طور پر زخمی ہوئے ہیں، وہ اب بھی یہاں زیر علاج ہیں۔
ملحوظ رہے کہ جماعت اسلامی ہند کے کیمپس دعوت نگر، ابو الفضل انکلیو میں 15 کروڑ کی لاگت سے 40,000 مربع فٹ آراضی پر تعمیر شدہ 150 بستروں والے الشفاء اسپتال کی او پی ڈی خدمات کا افتتاح نومبر 2011 میں سعودی سفیر برائے ہند فیصل حسن طراد اور دلی کی اس وقت کی وزیر اعلی آنجہانی شیلا دکشت کے ہاتھوں عمل میں آیا تھا۔
یہ بات بھی دل چسپی سے خالی نہ ہوگی کہ جس ایمبولینس وین کے شیشے دلی پولیس نے اپنی لاٹھیوں سے توڑ ڈالے تھے، اس ایمبولینس کو دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے اپنی رہائش گاہ سے 2 نومبر 2018 کو ہری جھنڈی دکھاکر روانہ کیا تھا۔ اس ملٹی اسپیشلٹی اسپتال کا انتظام و انصرام ہیومن ویلفیر ٹرسٹ سنبھال رہا ہے۔
نظام صحت کا شعبہ انسانی زندگی میں بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، کیونکہ جب کوئی مریض زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا اسپتال لایا جاتا ہے تو اس کی بحالی صحت کے لیے طبی سہولتوں کی فراہمی اور ڈاکٹروں کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ وہیں سماج کو ایسے وقت میں ایک ایسے اسپتال اور ادارے کی ضرورت رہتی ہے جو ہمہ وقت ضرورت مندوں، مظلوموں اور مجبوروں کی مدد کے لیے تندہی اور مستعدی سے تیار رہے۔ الشفاء اسپتال نے اپنی طرف سے جامعہ کے طلبا کے لیے اس خوف ناک ماحول میں یہ کام بخوبی انجام دیا ہے۔
انسانیت دوست اور انسان نواز افراد کے لیے اس میں بھی سبق ہے کہ قوم میں ایسے بے لوث ادارے زیادہ سے زیادہ قائم ہوں تاکہ نامساعد حالات میں بھی قوم کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔