یاسین ملک سپریم کورٹ کے سامنے ذاتی طور پر پیش ہوا، سالیسٹر جنرل نے اسے ’حفاظتی انتظامات کی سنگین کوتاہی‘ قرار دیا

نئی دہلی، جولائی 22: علاحدگی پسند رہنما یاسین ملک جمعہ کو سپریم کورٹ کے سامنے ذاتی طور پر پیش ہوئے، جس کے بعد سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ یہ واقعہ سیکیورٹی کی سنگین کوتاہی ہے۔

عدالت سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن کی طرف سے جموں کی عدالت کے حکم کے خلاف دائر کی گئی اپیل کی سماعت کر رہی تھی، جس میں مقدمے کی کارروائی کے دوران یاسین ملک کی جسمانی طور پر موجودگی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہ مقدمہ چار بھارتی فضائیہ کے اہلکاروں کے قتل اور 1989 میں جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کے اغوا سے متعلق ہے۔

جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما جیل کے عملے کے ایک گروپ کے ساتھ جسٹس سوریہ کانت اور دیپانکر دتہ پر مشتمل بنچ کے سامنے پیش ہوئے۔

ججوں نے پھر پوچھا کہ عمر قید کا مجرم عدالت کے سامنے ذاتی طور پر کیوں پیش ہو رہا ہے۔ عدالت نے کہا ’’وہ کسی بھی چیز پر سمجھوتہ کیے بغیر ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پیش ہو سکتا تھا۔‘‘

مہتا نے کہا کہ رجسٹرار کی اجازت کے بغیر کوئی بھی شخص سپریم کورٹ کے سامنے پیش نہیں ہو سکتا۔ ’’اگلی بار ہم یقینی بنائیں گے کہ وہ جسمانی طور پر پیش نہ ہو۔‘‘

سالیسٹر جنرل نے بعد میں مرکزی داخلہ سکریٹری اجے بھلا کو خط لکھا، جس میں کہا گیا کہ یہ واقعہ ایک سنگین سیکورٹی کوتاہی ہے، کیوں کہ ملک فرار ہو سکتا تھا یا مارا بھی جا سکتا تھا۔

مہتا نے کہا کہ نہ تو سپریم کورٹ نے علاحدگی پسند رہنما کی جسمانی طور پر موجودگی کا مطالبہ کیا تھا اور نہ ہی عدالت کی کسی اتھارٹی سے انھیں پیش کرنے کی اجازت لی گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ملک کی سیکیورٹی کے انچارج شخص نے کہا کہ اسے ایک عام فارمیٹ میں نوٹس کی بنیاد پر ذاتی طور پر پیش کیا گیا تھا جو تمام فریقین کو بھیجا جاتا ہے۔

مہتا نے کہا کہ وزارت داخلہ کا حکم حکام کو سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر جے کے ایل ایف لیڈر کو جیل سے باہر لانے سے روکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا تو سپریم کورٹ کی سیکیورٹی بھی خطرے میں پڑ جاتی۔

اس کے بعد ہفتہ کے روز تہاڑ جیل انتظامیہ نے چار افسران کو معطل کر دیا، جن میں ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اور دو اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ شامل ہیں۔

علاحدگی پسند رہنما کو قومی تحقیقاتی ایجنسی کی عدالت نے گذشتہ سال مئی میں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت دائر ایک مقدمے میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

ملک نے عدالت کے سامنے تمام الزامات کا اعتراف کیا تھا۔