اے ایف ایس پی اے جلد ہی پورے آسام سے ہٹایا جاسکتا ہے، امت شاہ کا دعویٰ

نئی دہلی، مئی 10: مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے منگل کو کہا کہ انھیں یقین ہے کہ آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ یا AFSPA کو آسام سے جلد ہی منسوخ کر دیا جائے گا۔

شاہ نے گوہاٹی میں کہا ’’آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ کو 23 اضلاع سے اور جزوی طور پر ایک ضلع سے منسوخ کر دیا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اسے جلد ہی پوری ریاست سے مکمل طور پر واپس لے لیا جائے گا۔‘‘

AFSPA ’’پریشان علاقوں‘‘ میں فوج کے اہلکاروں کو تلاش کرنے، گرفتار کرنے اور فائرنگ کرنے کے وسیع اختیارات دیتا ہے اگر وہ ’’امن عامہ کی بحالی‘‘ کے لیے ایسا ضروری سمجھیں۔ ناگالینڈ، آسام اور منی پور کے کچھ علاقوں سے یکم اپریل سے اسے منسوخ کر دیا گیا تھا۔

28 اپریل کو وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ مرکز شمال مشرق سے اس ایکٹ کو مکمل طور پر ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔

منگل کو وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ ایکٹ 1990 میں نافذ ہوا تھا اور اس کے بعد سے اس میں سات بار توسیع کی جا چکی ہے۔

امت شاہ آسام پولیس کو President’s Colour ایوارڈ دینے کے لیے شہر میں تھے۔ یہ ایوارڈ ہندوستان کی کسی بھی فوجی یونٹ کو دیا جانے والا سب سے بڑا اعزاز ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ آسام پولیس ریاست میں شورش سے نمٹنے کے لیے اس اعزاز کی ’’حق دار‘‘ ہے۔

شاہ نے کہا ’’آسام پولیس کی شاندار تاریخ ہے اور اس نے شورش، سرحدی مسائل، ہتھیاروں، منشیات اور مویشیوں کی اسمگلنگ، گینڈوں کے غیر قانونی شکار جیسے سماجی مسائل سے کامیابی کے ساتھ نمٹا ہے تاکہ ملک کی صف اول کی پولیس فورسز میں سے ایک بن کر ابھرے۔‘‘

انھوں نے مرکز اور آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما کی کئی عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ امن معاہدے کرنے کی کوششوں کی بھی تعریف کی۔

انھوں نے مزید کہا کہ وہ دن دور نہیں جب پوری ریاست شورش اور تشدد سے مکمل طور پر آزاد ہو جائے گی۔

4 دسمبر کو ناگالینڈ کے مون ضلع میں سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں 14 شہریوں کی ہلاکت کے بعد اس قانون کو ہٹانے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔

متعدد ناگا تنظیموں کے علاوہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی ریاستی اکائی نے بھی فائرنگ کی مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ خطے میں امن کو برقرار رکھنے کے لیے احتیاط اور صبر سے کام لینے کا وقت آگیا ہے۔ شاہ نے کہا تھا کہ اس واقعہ کی جانچ کے لیے ریاستی حکومت کی طرف سے ایک اعلیٰ سطحی خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے گی۔

شہری ہلاکتوں کی وجہ سے ناگالینڈ میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور مظاہرین اس قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ شمال مشرقی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے بھی اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

دریں اثنا پیر کے روز آرمی چیف جنرل منوج پانڈے نے کہا کہ ’’مون واقعے کی تحقیقات مکمل ہو گئی ہے۔‘‘

انھوں نے مزید کہا کہ رپورٹ پیش کر دی گئی ہے اور فی الحال رپورٹ کی قانونی جانچ ہو رہی ہے۔ اگر ہمیں کچھ ایسے اہلکار ملے جنھوں نے معیاری آپریٹنگ طریقہ کار اور رہنما اصولوں پر عمل نہیں کیا تو فوجی قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔‘‘