’’ہم مہذب ریاست کی طرف نہیں بلکہ کرائم اسٹیٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں‘‘

مہاراشٹر اسٹیٹ حقوق انسانی کمیشن کے خصوصی انسپکٹرجنرل عبدالرحمان سے دعوت نیوز کی خاص بات چیت، موصوف نے کل شہریت ترمیمی بل پر احتجاجاً استعفی دے دیا ہے۔ یہ انٹرویو ان سے گذشتہ ہفتے لیا گیا تھا۔

ملک میں اگر عورتوں کے ساتھ کرائم کے معاملے بڑھ رہے ہیں تو یہ لا اینڈ آرڈر کی ناکامی ہے۔ اسٹیٹ پولیس اس طرح کے کرائم کو کنٹرول کرنے میں پوری طرح سے ناکام ہے۔ اور کہیں نہ کہیں یہ حکومت کی بھی ناکامی ہے۔ ہم مہذب ریاست کی طرف نہیں بلکہ کرائم اسٹیٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

یہ خیالات مہاراشٹر کے سینئر ترین اور معزز آئی پی ایس افسر جناب عبد الرحمان کے ہیں، جنہیں اسی سال مارچ کے مہینے میں مہاراشٹر کے ریاستی انسانی حقوقق کمیشن کا خصوصی انسپکٹر جنرل مقرر کیا گیا ہے۔

آئی آئی ٹی کے گریجویٹ عبد الرحمان آئی پی ایس آفیسر ہیں۔ آپ 21 سال سے زیادہ عرصے پر محیط سینئر لیڈر شپ کا تجربہ رکھتے ہیںاور سیکیورٹی چیلنجوں سے پُر حالات میں اسٹریٹجک، انتظامی اور آپریشنل لیڈر شپ فراہم کر رہے ہیں۔ آپ دو مشہور کتابوں، ’سچر کی سفارشیں‘ (ہندی) اور ’ڈینائل اینڈ ڈیپری ویشن‘ (انگریزی) کے مصنف بھی ہیں، جن میں سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے موجودہ حالات کو اجاگر کیا گیا ہے۔

بہار کے مغربی چمپارن ضلع کے بتیا شہر میں پیدا ہونے والے عبد الرحمان کا تعلق ایک کسان خاندان سے ہے۔ انہوں نے 1995 میں آئی آئی ٹی کانپور سے بی ٹیک کی ڈگری حاصل کی اور 1997 بیچ کے آئی پی ایس آفیسر بنے۔ آپ مہاراشٹر کے بہت سے اضلاع میں مختلف اہم عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔ 2007-08 میں آپ کو دھولے اور یوتمال میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور دونوں فرقوں کے مابین مفاہمت کو فروغ دینے کے لیے حکومت مہاراشٹر کی جانب سے گاندھی پیس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ پولیس انفراسٹرکچر اور انتظامی اصلاحات کے لیے راجیو گاندھی ایڈمنسٹریشنل موبلٹی ایوارڈ سے بھی سرفرتاز کیے گئے۔

’’عالمی یوم انسانی حقوق‘‘ کے موقعے سے ہفت روزہ دعوت کے لیے صحافی افروز عالم ساحل نے ممبئی کے انسپکٹر جنرل عبد الرحمان سے خاص بات چیت کی۔ پیش ہے اس اہم گفتگو کے بعض اقتباسات۔

آج کے دور میں ہندوستان میں آپ انسانی حقوق کو کیسے دیکھتے ہیں؟

انسان کی زندگی سے جڑا ہر حق انسانی حق ہے۔ ملک میں کم و بیش تمام صوبوں میں انسانی حقوق کمیشن تو قائم ہو چکے ہیں، لیکن کسی نہ کسی طور حکومتوں کی غفلت کے شکار ہیں۔ ان کمیشنوں میں جو ضروری جوڈیشیل ارکان ہونے چاہئیں ان کی نشستیں بیشتر جگہوں پر خالی ہیں۔ اور اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حکومت کا ان کے ساتھ سوتیلا رویہ رہا ہے۔

ایسا کیوں ہے؟

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کمیشنوں کے بیشتر احکامات سرکاری شعبوں کے خلاف ہی رہتے ہیں۔ بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ تمام ہی احکامات سرکاری افسروں کے خلاف ہوتے ہیں۔ سرکاری افسر ہی ملک کے شہریوں کے انسانی حقوق کی پامالی کے مرکتب بنتے ہیں۔

کیا یہ بات آپ خود حکومت کے ایک افسر ہونے کے باوجود کہہ رہے ہیں؟

جی، دیکھیے! ہمیں یہ کام حکومت نے ہی دیا ہے۔ جب لوگوں کو لگتا ہے کہ ان کے انسانی حقوق کی پامالی ہوئی ہے تو ہمارے کمیشن کو شکایت کرتے ہیں۔ ہم ان شکایتوں کی تحقیقات کرتے ہیں۔ تحقیقات کرکے حکومت کو رپورٹ دیتے ہیں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ سارے انسانی حقوق کی پامالیاں سرکاری افسروں کی طرف سے ہی ہوتی ہیں۔

ملک کے عام شہریوں کی نظر میں انسانی حقوق کمیشنوں کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ ان کے حقوق کی پامالی ہو رہی ہے، لیکن اس کے باوجود وہ انسانی حقوق کمیشن میں نہیں جانا چاہتے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟

ایسا نہیں ہے۔ آج زیادہ تر لوگ بیدار ہیں۔ اور جب بھی عوام کے انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے وہ کمیشن ضرور آتے ہیں۔ لیکن یہاں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ تمام انسانی حقوق کمیشن کے احکامات سفارشی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اب یہ بات حکومت پر منحصر ہوتی ہے کہ وہ انھیں مانے یا نہ مانے۔ مان لیجیے کسی افسر کے خلاف کمیشن نے حکومت کو سفارش کی کہ اس کے خلاف انکوائری کی جائے یا اس پر اتنی رقم کا جرمانہ عائد کیا جائے، تو یہ ہماری طرف سے محض ایک سفارش ہوتی ہے۔ اب حکومت چاہے تو اس حکم کو مانے یا رد کردے، یہ اس کا اختیار ہے۔

آپ کی نظر میں حکومت کا کون سا شعبہ انسانی حقوق کی پامالی سب سے زیادہ کر رہا ہے؟

سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی پولیس اور ملک کی سیکوریٹی ایجنسیاں کر رہی ہیں۔ یہ بات میں مہاراشٹر کی ریاستی انسانی حقوق کمیشن میں آنے والی شکایتوں کی تعداد کی بنیاد پر بتا رہا ہوں۔

کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پولیس اور سیکوریٹی ایجنسیوں کے ذریعے انسانی حقوق کی پامالی کا تناسب کیا ہے؟

ہمارے پاس ابھی اس طرح کے اعداد وشمار نہیں ہیں۔ لیکن جہاں تک میں دیکھتا ہوں کہ 80 فیصد معاملے پولیس اور ملک کی سیکوریٹی ایجنسیوں سے جڑے رہتے ہیں۔

آپ کے نزدیک اس کی کیا وجہ ہے کہ سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی پولیس اور ملک کی سیکوریٹی ایجنسیاں کررہی ہیں؟ یہ سوال آپ سے اس لیے بھی پوچھ رہا ہوں کیونکہ آپ خود پولیس محکمے کے ایک ذمہ دار رہ چکے ہیں؟

لوگوں کی شکایتوں کی نوعیت دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ کسی کے ساتھ کوئی واردات ہوئی اور وہ پولیس کے پاس گیا، لیکن اس کی باتوں کو پولیس نے نہیں سنا۔ دوسری یہ کہ پولیس نے ہی الٹا اس کو مارا پیٹا۔ وہیں دوسری طرف خود پولیس کے انسانی حقوق کی پامالی بھی سرکاری افسران کے ذریعے ہوتی رہتی ہے۔

کوئی بھی انسانی حقوق کمیشن کس سطح تک کے افسران پر کوئی ایکشن لے پاتی ہے، میری مطلب کہ سزا کی سفارش کر پاتی ہے؟

ایکشن لینے کی کوئی حد طے نہیں کی گئی ہے۔ انسانی حقوق کمیشن جس پر چاہے ایکشن لے سکتی ہے۔ کانسٹبل سے لے کر ڈی جی رینک تک کے افسران کے خلاف تک ایکشن لے سکتی ہے لیکن میں نے آپ کو پہلے ہی بتا دیا ہے کہ وہ ایکشن صرف ایک سفارش ہوتی ہے۔ کمیشن حکومت سے صرف سفارش کر سکتا ہے۔ حکومت اسے مانے یا نہ مانے یہ حکومت کی مرضی پر منحصر ہے۔

ملک کے عام شہریوں کی یہ شکایت رہتی ہے کہ انسانی حقوق کمیشن میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ یہاں کے افسران ان کی سنتے نہیں ہیں۔ شکایتوں کے بعد برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ میں خود دیکھ رہا ہوں کہ قومی انسانی حقوق کمیشن میں نومبر 2019 تک 22 ہزار سے زیادہ انسانی حقوق پامالی کے معاملات زیر التوا ہیں، اور وہیں مہاراشٹراسٹیٹ انسانی حقوق کمیشن کی ویب سائٹ کی رو سے 2016 تک یہاں 20 ہزار سے زیادہ معاملے زیر التوا پڑے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مہاراشٹراسٹیٹ انسانی حقوق کمیشن کی ویب سائٹ بھی اپڈیٹیڈ نہیں ہے۔ اس پر آپ کیا کہیں گے ؟

معاملے زیر التوا رہنے کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی شکایتیں زیادہ آرہی ہیں۔ یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ لوگوں میں انسانی حقوق کو لے کر بیداری زیادہ ہے۔ لیکن انسانی حقوق کمیشن میں لوگ ہی نہیں ہیں۔ زیادہ تر نشستیں خالی رہتی ہیں۔ اور حکومت اس طرف مناسب توجہ نہیں دیتی۔ مہاراشٹر اسٹیٹ انسانی حقوق کمیشن میں دو رکن اور ایک چیئرمین ہونا چاہیے، لیکن اس وقت یہاں ایک ہی رکن ہے اور وہی چیئرمین بھی ہے۔ کچھ کلرک کے پوسٹ بھی خالی ہیں۔

مہاراشٹر حکومت نے گزشتہ دنوں نیشنل انسانی حقوق کمیشن کو بتایا ہے کہ مہاراشٹر میں ہر دن اوسط 8 کسان خودکشی کر رہے ہیں۔ اس کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

یہ حقیقت ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پہلے ودربھ میں کسان خودکشی کرتے تھے لیکن اب مراٹھواڑہ میں بھی کسان خودکشی کرنے لگے ہیں۔ اس کی اہم وجہ ساہوکاروں اور بینکوں کا قرض ہے۔ یا کسان کی جتنی لاگت ہے، انکم اتنا نہیں ہو پاتی ہے۔ تکلیف اور صدمے سے کسان خودکشی کررہا ہے۔

بھیما کورے گاؤں سے جڑی شکایتوں کے معاملے میں مہاراشٹر اسٹیٹ انسانی حقوق کمیشن نے کیا کیا؟

اس سلسلے میں اورنگ آباد سے توڑ پھوڑ اور یہاں کی خواتین کے ساتھ مار پیٹ کی ایک شکایت آئی ہے۔ ہم اس شکایت کی جانچ کر رہے ہیں۔

تلنگانہ آبروریزی اور بہیمانہ قتل معاملے میں حیدرآباد پولیس کے ذریعہ کیے گئے انکاؤنٹر کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ملک میں اگر عورتوں کے ساتھ کرائم کے معاملے بڑھ رہے ہیں تو یہ لا اینڈ آرڈر کی ناکامی ہے۔ اسٹیٹ پولیس اس طرح کے کرائم کو کنٹرول کرنے میں پوری طرح سے ناکام ہے۔ اور کہیں نہ کہیں یہ حکومت کی بھی ناکامی ہے۔ سزا دینا کورٹ کا کام ہے، پولیس کا نہیں۔ یہاں تک کہ جن ملکوں میں شریعہ قانون نافذ ہے وہاں بھی قانون پر عمل کرکے ہی چوک چوراہوں پر سزا دی جاتی ہے۔ اس طرح سے پولیس کے ذریعے انکاؤنٹر کرانا یہ ثابت کرتا ہے کہ ہم مہذب ریاست کی طرف نہیں بلکہ کرائم اسٹیٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اور پولیس کے اس جرم پر ان کی واہ واہی ہونا، ان پر پھول برسانا، یہ ملک کے لیے اچھا سگنل نہیں ہے۔

لوگوں کو کیا کرنا چاہیے کہ ان کے انسانی حقوق کی پامالی نہ ہو؟

لوگوں سے زیادہ حکومت کو کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کے جتنے بھی شعبے ہیں، وہاں کے افسران کو انسانی حقوق کے تئیں بیدار کرنا چاہیے۔ ان کو بتانا چاہیے کہ انسانی حقوق کیا ہیں، شہریوں کے تئیں آپ کی ذمہ داری کیا ہے۔ اگر ان کو حساس بنا دیا جائے تو انسانی حقوق کی پامالی کافی حد تک کم ہو جائے گی۔