آر ایس ایس کی صد سالہ تقریب سے وہن بھاگوت کا خطاب، ہندوستانی مسلمانوں کو اپنا قرار دیا
ہندو ؤں کو شدت پسندی سے بچنے اور میانہ روی اختیار کرنے کی نصیحت،دنیا کے سامنے مثال قائم کرنے کیلئےسماجی تبدیلی کی اپیل

دعوت ویب ڈیسک
نئی دہلی،28اگست :۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس ) کی جانب سے دہلی میں واقع وگیان بھون میں صد سالہ تقریبات کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے ۔اس تین روزہ پروگرام کا آج تیسرا دن ہے ،منگل کو تقریبات کا پہلا دن تھا جس میں آر ایس ایس سے وابستہ افراد اور سینئر اہلکاروں نے شرکت کی ۔آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک ڈاکٹر موہن بھاگوت کا کلیدی خطاب سے صد سالہ تقریبات کا آغاز ہوا۔ وگیان بھون میں منعقد تین روزہ لیکچر سیریز ’سنگھ کا صد سالہ سفر – نیا افق‘ کے موضوع پر جاری ہے ۔ اس دوران سرکاریہ واہ دتاتریہ ہوسبالے، شمالی خطے کے پرانت سنگھ چالک پون جندل اور دہلی پرانت سنگھ چالک ڈاکٹر انل اگروال اسٹیج پر موجود تھے۔موہن بھاگوت نے اس موقع پر پہلے دن کے خطاب میں آرایس ایس کی کے قیام اور اہداف و مقاصد پر روشنی ڈالی اور حب الوطنی پر مبنی خطاب کیا ۔بدھ کے روز تقریب کے دوسرے دن موہن بھاگوت نے جہاں ملک کے سماجی ،معاشی اور ثقافتی موضوعات پر خطاب کیا وہیں حسب سابق انہوں نے دیگر مذاہب مسلمانوں اور عیسائیوں کے سلسلے میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔حسب سابق انہوں نے مسلمانوں کو اپنا قرار دیا اور ان کے ساتھ اپنوں جیسا سلوک کا مشورہ دیا ۔انہوں نےکہا کہ باہر سے جارحیت کے سبب مذہبی خیالات بھارت میں آئے۔ کسی وجہ سے کچھ لوگوں نے انہیں قبول کر لیا۔ "وہ لوگ یہیں کے ہیں لیکن غیر ملکی نظریے کی وجہ سے جو دوریاں پیدا ہوئیں ان کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں دوسروں کے درد کو سمجھنا ہو گا۔ ایک ملک، ایک سماج اور ایک قوم کا حصہ ہونے کے ناطے ،تنوع کے باوجود ، مشترکہ آباؤ اجداد اور مشترکہ ثقافتی ورثے کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا، یہ مثبتیت اور ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے۔ اس میں بھی ہم سمجھ بوجھ کر ایک ایک قدم آگے بڑھانے کی بات کر رہے ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ گرچہ اسلام اور عیسائی مذاہب باہر سے آئے لیکن جنہوں نے ان نظریات کو قبول کیا وہ یہیں کے لوگ ہیں ،ہمیں دوریوں کو ختم کرنا چاہئے۔
موہن بھاگوت نے زندگی میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اصل میں دھرم اسی کا نام ہے ۔ ڈاکٹر موہن بھاگوت نے کہا کہ سماج اور زندگی میں توازن ہی دھرم ہے، جو کسی بھی طرح کی انتہا پسندی سے بچاتا ہے۔ بھارت کی روایت اسے مدھیم مارگ( اعتدال کاراستہ) کہتی ہے اور یہی آج کی دنیا کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے سامنے مثال بننے کے لیے سماجی تبدیلی کی شروعات گھر سے کرنی ہو گی۔
واضح رہے کہ موہن بھاگوت اس سے قبل بھی مسلمانوں اور عیسائیوں کے تعلق سے اس طرح کی باتیں کر چکے ہیں ،ان کے ساتھ ہم آہنگی بڑھانے کا مشورہ دے چکے ہیں لیکن ان کے بیان کا سماج میں کوئی خاص اثر نظر نہیں آتا ۔خاص طور پر مسلمانوں کے تعلق سے بھاگوت کے خیالات اور نظریات کے بر عکس زمین پر ہندو اکثریت کا رویہ نظر آتا ہے ۔ خود بی جے پی کے متعدد رہنما بھی موہن بھاگوت کے بیان اور آپسی ہم آہنگی کا مذاق اڑاتے اور اس کا کچھ اور مطلب سمجھاتے نظر آتے ہیں ۔ ایک بار پھرآر ایس ایس ک صد سالہ تقریب سے انہوں نے سماجی ہم آہنگی اور ہندوستانی مسلمانوں کو اپنا کہا ہے اور میل جول بڑھانے کا مشورہ دیاہے ۔