اے ایم یو میں احتجاج کے دوران فلسطین کے حق میں نعرے بازی کا الزام، طلباء رہنماپر مقدمہ درج
ہندو رکشا دل کے ضلع صدر کی شکایت پر طلحہ منان کے ساتھ 10-8 نامعلوم طلبہ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے

دعوت ویب ڈیسک
نئی دہلی ،21 اگست :۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں ان دنوں طلبا کا متعدد مطالبات کو لے کر خاص طور پر فیس میں اضافہ اور طلبا تنظیم کی بحالی کے سلسلے میں احتجاج جاری ہے ۔حالیہ دنوں میں یونیور سٹی انتظامیہ اور طلبا کے درمیان مصالحت کی کوششیں بھی نا کام ہو گئی ہیں۔ہڑتال اور احتجاج کے دوران پولیس کے ذریعہ طلبا کے ساتھ بد سلوکی اور تشدد کا معاملہ بھی سرخیوں میں ہے۔دریں اثنا گزشتہ کل احتجاج کے دوران ایک نیا تنازعہ سامنے آیا۔فلسطین کے حق میں نعرے بازی کے الزا م میں اسٹوڈنٹ لیڈر اور سابق طالب علم طلحہ منان کے ساتھ 8-10 گمنام طلبہ کے خلاف پولیس نے مقدمہ درج کیا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق یہ شکایت گزشتہ روز پیر کو ہندوتوا گروپ ہندو رکشا دل کے ضلع صدر سنجے آریہ نے سول لائنز پولیس اسٹیشن میں دفعہ 223، 353 کے تحت ایک سرکاری ملازم کی طرف سے جاری کردہ حکم کی نافرمانی اور عوامی فساد کا باعث بننے والے بیانات سے متعلق درج کرائی تھی۔
شکایت کنندہ نے دعویٰ کیا ہے کہ احتجاج غیر قانونی ہے اور بغیر اجازت کے جاری ہے۔ شکایت کنندہ نے الزام لگایا کہ فلسطین کے لیے نعرے لگانے سے معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہو سکتی ہے۔
شکایت میں لکھا گیا ہے، "طلحہ منان، 8-10 دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر فلسطین کی حمایت میں اشتعال انگیز نعرے لگا رہے تھے اور مختلف طریقوں سے ہجوم کو مدعو کر رہے تھے، ان نعروں کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں۔ ان ویڈیوز اور تصاویر میں طلحہ کو اسکارف پہنے فلسطین کا جھنڈا دکھاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ 12 اگست کو پیش آیا تھا، جب طلحہ نے فلسطینی پرچم کے ساتھ کیفیہ پہن کر احتجاج میں شمولیت اختیار کی اور فلسطینیوں کے ساتھ اپنی مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ فیس میں اضافے کا مقصد یونیورسٹی کی آبادی کو تبدیل کرنا ہے۔
واضح رہے کہ طلباء فیس میں اضافے کے بعد یونیورسٹی میں احتجاج کر رہے ہیں اور اسے واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ غریب اور پسماندہ طبقے کے بہت سے طلباء اس کے متحمل نہیں ہیں۔
مسلم میرر کی رپورٹ کےمطابق طلبا رہنما کے خلاف کی گئی ایف آئی آر کی مذمت کی جا رہی ہے اور اسے انصاف کیلئے اور طلبا کے حقوق کیلئے جاری مظاہرے کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ طالبہ آفرین فاطمہ اور بردرس موومنٹ کے قومی نائب صدر عمر فاروق اور دیگر سمیت کئی کارکن طلحہ اور دیگر کی حمایت میں آگئے ہیں۔ کارکنوں نے زور دے کر کہا کہ انصاف کے مطالبے کو نفرت انگیز تقریر قرار نہیں دیا جا سکتا اور ایف آئی آر درج کرنے پر پولیس پر تنقید کی۔ انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ جب ملزمان مسلمان ہیں تو حکام کی جانب سے فوری کارروائی کی جا رہی ہے ۔