اسلام میں شرائط کے ساتھ تعدد ازدواج کی اجازت

الہ آباد ہائی کورٹ کا تعدد ازدواج پر اہم تبصرہ، کہا کچھ مسلمان اس اجازت کا غلط استعمال کر رہے ہیں

نئی دہلی ،پریاگ راج، 15 مئی:۔

اسلام میں تعدد ازدواج کی اجازت ہے اور مسلم پرسنل لاءکا استعمال کرتے ہوئے ایک سے زائد شادیاں کر سکتے ہیں۔آج الہ آباد ہائی کورٹ نے بھی ایک عرضی کی سماعت کے دوران اس بات کا اعتراف کیا ۔ ایک اہم عبوری حکم میں الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ اسلام میں تعدد ازدواج کی اجازت شرائط کے ساتھ ہے۔ لیکن ساتھ ہی ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ کچھ مسلمان اس اجازت اور سہولت کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ عدالت نے علماء سے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اسلامی قانون کا غلط استعمال نہ ہو۔ عدالت نے کہا کہ مسلم مرد تبھی دوسری شادی کریں جب وہ سبھی بیویوں کے ساتھ یکساں سلوک کر سکیں۔ اس کے لیے عدالت نے قرآن پاک کا حوالہ دیا اور کہا کہ ’’قرآن میں خاص وجوہات کی بنا پر تعدد ازواج کی اجازت دی گئی ہے، لیکن کچھ مرد اس کا اپنے مفاد کے لیے غلط استعمال کرتے ہیں۔‘‘

الٰہ آباد ہائی کورٹ نے مراد آباد سے جڑے ایک معاملے کی سماعت کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔ عدالت نے کہا کہ اسلامی دور میں بیوہ خواتین اور یتیموں کو تحفظ فراہم کرنے کے مقصد سے قرآن میں کثرت ازواج کی مشروط اجازت دی گئی ہے۔ لیکن مرد اپنے مفاد کے لیے اس کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ عدالت نے عرضی گزار فرقان اور 2 دیگر افراد کی طرف سے داخل کردہ عرضی پر سماعت کے دوران یکساں سول کوڈ کی وکالت کرتے ہوئے یہ بات کہی۔

واضح رہے کہ  عرضی گزار فرقان، خوشنما اور اختر علی نے مراد آباد سی جے ایم کورٹ میں 8 نومبر 2020 کو داخل چارج شیٹ کے نوٹس اور سمن حکم کو رد کرنے کے مطالبہ میں عرضی داخل کی تھی۔ تینوں عرضی گزاروں کے خلاف مراد آباد کے میناٹھیر تھانہ میں 2020 میں تعزیرات ہند کی دفعہ 376، 495، 120 بی، 504 اور 506 کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی۔ اس کیس میں مراد آباد پولیس نے ٹرائل کورٹ میں چارج شیٹ داخل کر دی ہے۔ عدالت نے چارج شیٹ کا نوٹس لے کر تینوں کو سمن جاری کیا ہے۔ ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا ہے کہ عرضی گزار فرقان نے بغیر بتائے دوسری شادی کر لی ہے، جبکہ وہ پہلے سے ہی شادی شدہ ہے  عرضی گزار فرقان کے وکیل نے عدالت میں دلیل دی کہ ایف آئی آر کرنے والی خاتون نے خود ہی قبول کیا ہے کہ اس نے اس کے ساتھ تعلقات بنانے کے بعد اس سے شادی کی ہے۔

جسٹس ارون کمار سنگھ دیسوال نے کہا کہ چونکہ اسلام چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے، دوسری شادی جرم نہیں ہے۔ عدالت نے مخالف اہلیہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 26 مئی تک جواب طلب کر لیا، اس وقت تک درخواست گزاروں کے خلاف کسی بھی جابرانہ کارروائی پر روک لگا دی گئی ہے۔

درخواست گزار نے کہا کہ یہ دونوں مسلمان ہیں اور اسلام چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے۔ لہذا تعزیرات ہند کی دفعہ 494 شادی بیاہ کو جرم نہیں قرار دیتی۔ اس لیے فوجداری مقدمہ منسوخ کیا جائے۔ عدالت نے اس معاملے کو قابل بحث سمجھا کہ کیا اسلام خود غرضی اور جسمانی تسکین کے لیے دوسری شادی کی اجازت دیتا ہے۔