بنگلہ دیش کے بہانے شدت پسند ہندو تنظیمیں مسلمانوں کیخلاف نفرت پھیلانے میں سر گرم
بنگلہ دیش میں ہوئے تختہ پلٹ کے دوران ہندو مندروں پر حملے کی فرضی خبریں سوشل میڈیا پر شیئر،جبکہ حقیقت میں مسجدوں سے ہندو ،سکھ اور عیسائی اقلیتوں کے عبادت گاہوں کے تحفظ کی اپیل کی جا رہی ہے
نئی دہلی ،06 اگست :۔
پڑوسی ملک بنگلہ دیش اس وقت سخت سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔ریزرویشن کے خلاف شروع ہوئی طلبا کی تحریک وقت گزرنے کے ساتھ عوامی تحریک میں تبدیل ہو گئی اور انجام یہ ہوا کہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کو ملک چھوڑ کر فرار ہونا پڑا۔اس بات سے انکار نہیں کہ بنگلہ دیش اس وقت سخت تشدد اور بحران سے نبرد آزما ہے ۔مگر پڑوس میں آئے اس سیاسی بحران کے بہانے ملک کے شدت پسند ہندو اور دائیں بازو کی حامی جماعتیں ملک کے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اورہندو اکثریت کو اکسانے میں پیچھے نہیں ہیں ۔چنانچہ اس بحران کی آڑ میں سوشل میڈیا پر بنگلہ دیش میں ہندو مندروں پر حملے کی فرضی خبریں پھیلا رہے ہیں اور یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مسلمان بنگلہ دیش میں ہندوؤں اور مندروں پر حملے کر رہے ہیں ۔ہندوستانی دائیں بازوکے حامیوں نے بغیر کسی تصدیق کے ہندوؤں پر حملوں کے بارے میں جعلی خبروں کے ساتھ سوشل میڈیا کو بھر دیا ہے۔ دائیں بازو کے نظریات کے حامل کئی بااثر ہندوستانی اکاؤنٹس اور نیوز چینلز نے ہندوؤں پر ٹارگٹ حملوں کی اطلاع دی ہے۔مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔
بنگلہ دیش سے آنے والی خبروں اور سوشل میڈیا میں تشدد کے واقعات ضرور سامنے آ رہے ہیں عوامی لیگ کے خلاف لوگوں میں غصہ ہے اور ان پر حملے کئے جا رہے ہیں لیکن ہندوؤں کو نشانہ بنانے یا مندروں پر منظم حملے کی اطلاعات نہیں ہیں ۔اس کے بر عکس اس احتجاج اور انقلاب میں سر کردہ کردار ادا کرنے والی طلباتنظیم چھاتر شیبر نےباقاعدہ مساجد سے ہندؤ اور دیگر اقلیتوں کے تحفظ کی اپیل کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش میں حالات غیر مستحکم ہونے کے بعد، بنگلہ دیش کے مسلمانوں نے دیگر مذہبی اقلیتوں کے درمیان خوف کو روکنے کے لیے مندروں کی حفاظت کی تصاویر شیئر کی ہے۔
سوشل میڈیا پر #AllEyesOnBangladeshiHindus ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ طلباء رہنماؤں اور سیاسی شخصیات نے تشدد اور توڑ پھوڑ کے خاتمے کے لیے ریلی نکالی ہے اور مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔ امتیازی سلوک مخالف اسٹوڈنٹ موومنٹ کے رابطہ کاروں نے ہندوؤں کی حفاظت کی اپیل بھی کی۔اگرچہ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہجوم نے عوامی لیگ کے ارکان کو نشانہ بنایا، لیکن کوئی رپورٹ ہندوؤں پر حملہ کرنے کی تصدیق نہیں کرتی۔ بلکہ سوشل میڈیا پر متعدد ایسی تصاویر سامنے آئی ہیں جہاں بڑی تعداد میں مسلمان ہندو مندروں کے سامنے پہرہ دے رہے ہیں اور ہندوؤں کو تحفظ کا یقین دلا رہے ہیں۔ بلکہ مسجد کے اندر سے لاؤڈ اسپیکر پر اس سلسلے میں ایک خصوصی اعلان بھی کیا گیا ۔ جس میں کہا گیا کہ ہم اسٹوڈینٹس اگینسٹ ڈسکریمینیشن آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ ملک میں بدامنی کے اس دور میں ہم سب فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھیں ۔ ہمیں ہندو اقلیتوں کی حفاظت کرنی ہے۔ شرپسندوں/لٹیروں سے ان کی جان و مال کی حفاظت کریں۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے، ہماری ذمہ داری ہے اور سب کی ذمہ داری ہے۔