6 دسمبر :بابری مسجد کے انہدام میں شامل دو کار سیوک جو بعد میں مسلمان ہوگئے
بلبیر اور یوگیندرنامی دو کار سیوکوں نے نہ صرف اسلام قبول کر کے اپنانام تبدیل کیا بلکہ 100 مساجد کی مرمت کا عہد بھی کیا
نئی دہلی ،06 دسمبر :۔
ایودھیا کی بابری مسجد 6 دسمبر 1992 کو منہدم کر دی گئی۔ آج 6 دسمبر کی تاریخ ہے۔بابری مسجد کی شہادت کو 30 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، ہر سال چھ دسمبر کو بابری مسجد کے یوم شہادت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔بابری مسجد کی جگہ پر سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد اب وہاں رام مندر کی تعمیر ہو چکی ہے مگر بابری مسجد کے انہدام سے جڑے متعدد ایسے واقعات ہیں جو رہتی دنیا کیلئے عبرت آمیز اور سبق آموز رہیں گے ۔ انہیں میں دو ایسے کارسیکوں کی کہانی بھی شامل ہے جو مسجد کے انہدام میں شامل تھے اور انہوں نے کارسیوک کے طور پر کام کیا لیکن ایک وقت آیا جہاں انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے غلط کیا ۔ بعد میں اسلام قبول کر لیا۔
دی للن ٹاپ ہندی کی رپورٹ کے مطابق مسجد کے انہدام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے دو ہندو بعد میں مسلمان ہو گئے۔وہ صرف مسلمان ہی نہیں ہوئے بلکہ دونوں نے ‘گناہوں کا کفارہ ادا کرنے’ کی بات کرتے ہوئے 100 مساجد کی تزئین و تعمیر کا فیصلہ بھی کیا۔
رپورٹ کے مطابق ان دو کارسیوکوں میں سے ایک کا نام بلبیر ہے۔بلبیر پانی پت کے رہنے والے ہیں۔ شیوسینا کا لیڈر ہوا کرتے تھے ۔ آر ایس ایس کے نظریے سے متاثر تھے۔ شروع شروع میں وہ پانی پت کے شاکھا میں باقاعدگی سے جایا کرتے تھے۔ رام مندر تحریک کے لیے پورے جوش و خروش کے ساتھ ایودھیا گئے تھے۔ یوگیندر پال بھی ان کے ساتھ تھے۔ بعد میں انہوں نے سارا واقعہ بتایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم دونوں نے رام مندر تحریک میں جوش و خروش سے حصہ لیا تھا۔ بلبیر نے یہ دعویٰ کیا تھاکہ یکم دسمبر کو ایودھیا پہنچنے والے پہلے کار سیوکوں میں ہم بھی شامل تھے۔ میں 6 دسمبر کو درمیانی گنبد پر چڑھنے والا پہلا شخص تھا۔
6 دسمبر 1992 کے واقعے کو یاد کرتے ہوئے بلبیر نے مزید کہا ‘ہمیں ڈر تھا کہ ہمیں روکنے کے لیے فوج کا استعمال کیا جائے گا، لیکن زمین پر کوئی موثر سیکیورٹی نہیں تھی۔ جس سے ہم مزید حوصلہ مند ہوگئے ۔ ہم اس وقت بابری مسجد کو منہدم کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے۔
بلبیر نے بتایا کہ انہوں نے سونی پت اور پانی پت کے کئی دوسرے کار سیوکوں کے ساتھ مل کر گنبد کو گرانے کے لیے کودال اور مارٹر کا استعمال کیا تھا۔ کام ختم ہونے کے بعد جب وہ ہریانہ میں اپنے آبائی شہر پانی پت پہنچے تو وہاں انہیں ‘ویر’ کے طور پر نوازا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ جب میں گھر پہنچا تو گھر والوں کا ردعمل میرے لیے چونکا دینے والا تھا۔ میرا خاندان سیکولر ہے۔ اس نے میری مذمت کی۔ میں نے اپنے جذبات کی وجہ سے کارسیوا میں حصہ لیا، لیکن بعد میں مجھے احساس ہوا کہ یہ غلط تھا۔
میں جانتا تھا کہ میں نے قانون اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔ ہندوستان کے آئین کی خلاف ورزی کی۔ احساسِ جرم میں نے جلد ہی اسلام قبول کر لیا۔بعد میں بلبیر نے اپنا نام بدل کر محمد عامر رکھ لیا۔ ان کے ساتھی یوگیندر کا نام محمد عمر ہو گیا۔ بلبیر نے ملک بھر میں مساجد کی تعمیر اور حفاظت کا کام شروع کیا۔ ایک بار گفتگو کے دوران بتایا تھا کہ یوگیندر اور میں دونوں نے ایودھیا میں شری رام مندر بنانے کا عہد کیا تھا، لیکن اب ہم نے 100 مساجد کی تزئین و آرائش کرکے اپنے گناہوں کو دھونے کا عہد کیا ہے۔
بلبیر نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اس معاملے میں کہیں بھی بیان دے سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ سی بی آئی یا متعلقہ اتھارٹی سے سزا کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔
بلبیر کے عامر بننے کے بعد انہوں نے ایک مسلم خاتون سے شادی کی۔ اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے اسکول چلانا شروع کیا۔ اپنے ساتھی یوگیندر پال کے ساتھ مل کر وہ اب تک 90 سے زیادہ مساجد کی تعمیر کر چکے ہیں۔