2017 سے 2019 کے درمیان 24 ہزار زیادہ بچوں نے خودکشی کی: نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو
اس عمر کے بچوں میں خودکشی کے سب سے زیادہ واقعات مدھیہ پردیش 3115، مغربی بنگال 2802، مہاراشٹر 2527 اور تمل ناڈو 2035، میں پیش آئے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق، 2017-19 کے درمیان 24568 بچوں نے، جن میں 14 سے 18 سال کی 13325 لڑکیاں شامل ہیں، خودکشی کی۔ 2017 14 سے 18 سال کی عمر کے 8029 بچوں نے خودکشی کی۔ رپورٹ کے مطابق 2018 میں یہ تعداد بڑھ کر 8162 ہوگئی اور پھر 2019 میں مزید 8377 ہوگئی۔ اس عمر کے بچوں میں خودکشی کے سب سے زیادہ واقعات مدھیہ پردیش میں 3115، مغربی بنگال میں 2802، مہاراشٹر میں 2527 اور تمل ناڈو میں 2035 پیش آئے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق 4046 بچوں کی خودکشی کی وجہ امتحان میں ناکامی تھی، جب کہ 411 لڑکیوں سمیت 639 بچوں کی خودکشی کے پیچھے شادی سے متعلق مسائل تھے۔رپورٹ کے مطابق محبت کے معاملات سے متعلقہ وجوہات کی بنا پر تقریباً 3315 بچے خودکشی سے مرے، جب کہ بیماری کی بنا پر 2567 بچوں نے خودکشی کی۔ کسی عزیز کی موت، منشیات کا استعمال یا شراب نوشی، ناجائز حمل، سماجی ساکھ میں کمی، بے روزگاری، غربت اور نظریاتی وجوہ ان بچوں کی خودکشیوں کے دیگر اسباب تھے۔
کووڈ 19 کی وبا کی وجہ سے صورت حال کے مزید خراب ہونے کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے، بچوں کے حقوق کے کارکنوں نے لائف اسکل ٹریننگ کو سکول کے نصاب میں شامل کرنے اور ذہنی صحت کو مرکزی دھارے کی صحت اور فلاح و بہبود کے ایجنڈے کا حصہ بنانے پر زور دیا ہے۔
ایک تنظیم، CRY-Child Rights and Youکی سی ای او پوجا مرواہا نے کہا کہ چھوٹے بچوں میں خودکشی کی کوششیں اکثر جذبات کی رو میں بہ جانے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ وہ اداسی، الجھن، غصے، تناؤ یا توجہ اور ہائپر ایکٹیویٹی کے مسائل سے جوجھ رہے ہوتے ہیں۔ نوعمروں میں خودکشی کی کوششیں تناؤ، تشکیک، کام یاب ہونے کا دباؤ، مالی غیر یقینی صورت حال، مایوسی، افسردگی اور نقصان کے جذبات سے وابستہ ہوسکتی ہیں۔ کچھ نوجوانوں کو لگتا ہے کہ خودکشی ان کے مسائل کا حل ہے۔
ذہنی صحت اور بچوں اور نوعمروں کی نفسیاتی سماجی بہبود سے متعلق مسائل تیزی سے صحت اور ترقی کی اہم ترجیح بن چکے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں تمام بچوں اور نوعمروں کو معیاری ذہنی صحت کی دیکھ بھال اور نفسیاتی سماجی مدد کا حق حاصل ہے، اور ان کی ذہنی صحت کو یقینی بنانا ان کی مجموعی صلاحیتوں کو بڑھانے اور معاشرے کا اہم رکن بننے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
حکومت، سول سوسائٹی، تنظیموں اور خاندانوں کو مسئلے کی نزاکت سمجھتے ہوئے آگے آنا چاہیے اور بچوں اور نوجوانوں کو ان کے نفسیاتی مسائل سے نمٹنے میں مدد کے لیے اسکول کے نصاب میں روک تھام، تھراپی، علاج، بحالی کی خدمات اور لائف اسکل ٹریننگ کو شامل کرنے کے لیے ایک مضبوط طریقہ کار میں تعاون کرنا چاہیے۔
سینٹر فار ایڈووکیسی اینڈ ریسرچ کی ڈائرکٹر اکھیلا شیوداس کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کے ان کی زندگی کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے واضح، متفقہ اور پراعتماد پالیسی کبھی نہیں رہی۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ انٹرنیٹ کے دور میں ضروری معلومات، مضبوط پیشہ ورانہ اور ذاتی ماحولیاتی نظام کی مدد کے بغیر وہ متعدد دباؤ اور توقعات کو سمجھنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ بروقت پیشہ ورانہ خدمات اور مدد کے ذریعے اس مسئلے سے نمٹنے میں اور اس کے بدترین نتائج کو کم کرنے کے لیے کافی کوشش نہیں کی گئی ہے۔