2023 میں عالمی تنازعات میں ہلاک شدہ تقریباً 40 فیصد بچے غزہ کے ہیں: اقوامِ متحدہ

جنیوا ، 13جون
غزہ میں اسرائیل کی جانب سے گزشتہ سال اکتوبر سے حملے جاری ہیں ۔اس دوران بڑی تعداد میں خواتین اور بچوں کی ہلاکت سامنے آئی ہیں ۔گزشتہ سال 2023میں پوری دنیا میں عالمی تنازعات میں ہلاک ہونے والے بچوں کی مجموعی تعداد کا اندازہ لگایا جائے تو ان میں چالیس فیصد ہلاک شدہ بچوں کی تعداد صرف غزہ سے ہے ۔
رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال عالمی سطح پر تنازعات میں ہلاک شدہ نابالغ افراد میں تقریباً 40 فیصد تعداد غزہ کے بچوں کی ہے۔ یہ اعداد و شمار اقوام متحدہ کی ایک آئندہ رپورٹ کے ہیں جن کی اس نے تصدیق کی ہے۔
سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے رپورٹ میں کہا کہ 2023 میں 2,000 سے زائد فلسطینی بچوں کے قتل سے کم عمر افراد کے خلاف تشدد "انتہائی سطح” تک پہنچ گیا۔ مذکورہ رپورٹ کا بلومبرگ نیوز نے جائزہ لیا اور اس ماہ کے آخر میں اسے عوامی سطح پر جاری کیا جائے گا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اعداد و شمار میں صرف وہ اموات شامل ہیں جن کی اقوامِ متحدہ تصدیق کر سکی ہے جبکہ جنگ کے ابتدائی تین مہینوں میں فلسطینیوں کی ہزاروں اضافی ہلاکتوں کے بارے میں وہ بدستور تعین کر رہی ہے۔
غزہ جنگ میں ہلاکتوں کی تعداد کی وجہ سے لڑائی روکنے کی عالمی کوششوں کو تقویت ملی ہے جسے امریکہ، قطر اور مصر سمیت ثالثین حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ چونکہ لڑائی جاری ہے تو ہلاکتوں کی تفصیلات کی تصدیق مشکل ہے۔
گوتیرس نے رپورٹ میں لکھا کہ جنگ "بچوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی ایک غیر معمولی سطح اور شدت ظاہر کرتی ہے جس میں دشمنی کی وجہ سے سنگین خلاف ورزیوں میں 155 فیصد اضافہ ہوا ہے۔” اقوامِ متحدہ نے کہا، اسرائیلی فوج اور حماس کے عسکری ونگ دونوں کے ساتھ ساتھ فلسطینی اسلامی جہاد بھی غزہ میں بچوں کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہے۔
اقوامِ متحدہ نے نوٹ کیا کہ رپورٹ "بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے مکمل پیمانے کی نمائندگی نہیں کرتی لیکن اقوامِ متحدہ کے تصدیق شدہ رجحانات کی معلومات فراہم کرتی ہے۔” اطلاع کردہ خلاف ورزیوں کی جانچ پڑتال کے لیے اقوامِ متحدہ نگرانی اور رپورٹنگ کے ایک طریقہ کار پر انحصار کرتا ہے جس کے لیے مقامی نگرانوں سے دعوو¿ں کی آزادانہ تصدیق کی ضرورت ہوتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی سالانہ رپورٹ دنیا بھر میں تنازعات میں 18 سال سے کم عمر افراد کے خلاف تشدد کے واقعات کا جائزہ لیتی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب اسرائیل اور حماس کو ان عناصر کی نام نہاد بلیک لسٹ میں شامل کیا گیا ہے جو 20 سال سے زائد عرصے میں بچوں کے حقوق کی "سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب” ہوئے ہیں۔ رپورٹ سلامتی کونسل میں پیش کر دی گئی ہے۔
اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گیلاد اردان جو اس تنظیم پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں، نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ رپورٹ میں اسرائیل کو شامل کرنا ایک "غیر اخلاقی فیصلہ” تھا۔