160سر کردہ شخصیات کی عمر خالد سمیت دیگر سی اے اے مخالف کارکنوں کی رہائی کی اپیل
نصیر الدین شاہ ،رومیلا تھاپر ،ہرش مندر سمیت متعد اہم شخصیات نے مشترکہ بیان جار ی کر کے کہا کہ ’ہم یہ دیکھ کر بہت پریشان ہیں کہ کس طرح عمر جیسے باصلاحیت شخص کو بار بارایک حکومت کی جانب سے نشانہ بنایا گیا اور بدنام کیاگیا
نئی دہلی،30جنوری (دعوت ڈیسک)۔
دہلی میں 2020 میں ہوئے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کے دوران تشدد کے بعد گرفتار کئے گئے جے این یو کے طالب علم رہنما عمر خالد کو جیل میں اب تک 1600 دن ہو گئے ہیں ۔ عمر خالد کی اس لمبی گرفتاری اور قید و بند کی زندگی پر متعد سماجی کارکنان اور ماہرین تعلیم نے عمر خالد کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امیتاو گھوش، نصیر الدین شاہ، رومیلا تھاپر، جیتی گھوش، ہرش مندر اور کرسٹوف جیفرلو سمیت 160 اہم شخصیات نے نے عمر خالد اور شہریت (ترمیمی) ایکٹ (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک بیان پر دستخط کیے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اپنے مشرکہ بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ خالد 30 جنوری 2025 کو جیل میں 1600 دن مکمل کرلیں گے، جو مہاتما گاندھی کی 77 ویں برسی بھی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے، ‘ہم سب اس اتفاق سے بے خبر نہیں ہیں۔ اور نہ ہی ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ کسی کی نظر میں آئے۔ غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت خالد کی لمبی قید کا حوالہ دیتے ہوئے بیان میں کہا گیا،’ہم یہ دیکھ کر بہت پریشان ہیں کہ کس طرح عمر جیسے باصلاحیت شخص کو بار بارایک حکومت کی جانب سے نشانہ بنایا گیا اور بدنام کیاگیا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہےکہ ‘خالد، جو تکثیریت، سیکولرازم اور آئینی اقدار کی وکالت کرنے والی اپنی باتوں کے لیے جانے جاتے ہیں، ان پر تشدد بھڑکانے کی سازش کرنے کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔’
اس میں دیگر کارکنوں – گلفشاں فاطمہ، شرجیل امام، خالد سیفی، میران حیدر، اطہر خان اور شفا الرحمان کا نام بھی لیا گیا ہے، جنہیں سی اے اے مخالف مظاہروں کے بعد نشانہ بنایا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے، ‘…بار بار ضمانت نہ ملنا اور مقدمے کے بغیر طویل مدت تک جیل میں رکھنا خالد اور دیگر لوگوں کے معاملےکا سب سے المناک پہلو ہے۔’
دستخط کرنے والوں نے دہلی ہائی کورٹ کے 2021 کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا، جہاں بنچ نے کہا تھا، ‘… حکومت کے ذہن میں احتجاج کرنے کے آئینی حق اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے درمیان کی لکیر دھندلی ہوتی نظر آرہی ہے۔’
بیان میں کہا گیا ہے کہ’عمر اور ان جیسے بہت سے دوسرے لوگ سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت جیل میں بند ہیں، بغیر ضمانت کے، بغیر کسی مقدمے کے، سالوں سے۔ اس لیے نہیں کہ اس نے کسی کو تشدد کی ترغیب دی یا اکسایا، بلکہ اس لیے کہ وہ امن اور انصاف کے دفاع میں کھڑے تھے اور غیر منصفانہ قوانین کے خلاف عدم تشدد کے احتجاج کی وکالت کی۔