حکومت ملک اور جموں و کشمیر میں اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنائے: جماعت اسلامی ہند
نئی دہلی، جون 4: ملک کی سرکردہ مسلم مذہبی سماجی تنظیم جماعت اسلامی ہند نے جموں و کشمیر میں اقلیتوں اور باہری لوگوں کی حالیہ ہلاکتوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے ان ہلاکتوں کی تحقیقات اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند نے معصوم شہریوں کے قتل کی شدید مذمت کی اور حکومت سے اپیل کی کہ وہ ان کارروائیوں کے اصل مجرموں اور سازشیوں کو سزا دے۔
ہفتہ کو دہلی میں جماعت اسلامی ہند کے ہیڈکوارٹر میں ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا، جس میں کشمیر میں بے گناہ شہریوں کے قتل اور ان کی نقل مکانی، مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانا، جنسی کاموں پر سپریم کورٹ کا تبصرہ اور ملک کو درپیش معاشی چیلنجز وغیرہ کے تعلق سے جماعت اسلامی ہند کے قومی عہدیداروں نے میڈیا کے سامنے اپنی بات رکھی۔
پریس کانفرنس میں جماعت اسلامی ہند کے قومی نائب امیر انجینئر محمد سلیم، قومی سکریٹری محمد احمد اور نیشنل میڈیا کے شریک سکریٹری سید خلیق احمد موجود تھے۔
جماعت اسلامی ہند کے قومی نائب امیر انجینئر محمد سلیم نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ’’حکومت کو تمام مذاہب کے لوگوں کے درمیان باہمی اعتماد کو فروغ دینے، ان کی حفاظت کو یقینی بنانے اور دیرپا امن قائم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
انھوں نے حکومت کی توجہ اس طرف بھی مبذول کرائی کہ ’’بہت سے موقع پرست اس صورت حال کا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنا چاہتے ہیں، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ چوکنا رہے اور اسے فرقہ وارانہ بننے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ’’اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ اسی عرصے کے دوران بہت سے مسلمانوں کو بھی قتل کیا گیا اور کشمیری مسلمان تشدد کا سب سے زیادہ شکار ہوئے، اس لیے اس معاملے کو تنگ فرقہ وارانہ نظریے سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ کشمیر میں مستقل امن سب کے مفاد میں ہے اور اس سمت میں ٹھوس اقدام کی ضرورت ہے۔‘‘
پروفیسر محمد سلیم نے مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کے معاملے پر بھی اپنا موقف پیش کیا۔ ملک میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کے حالیہ واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’’رام نومی کے موقع پر فرقہ وارانہ طور پر حساس علاقوں میں جان بوجھ کر کئی جلوس نکالے گئے اور مساجد کے میناروں پر زعفرانی پرچم لہرانے کی کوشش کی گئی۔ یہ سب دن کے اجالے میں ہوا اور پولیس اور مقامی انتظامیہ نے اسے نظر انداز کر دیا۔‘‘
انھوں نے مزید کہا کہ ہندوستان کے کئی بڑے شہروں کی بڑی مساجد کو نشانہ بناتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ انہیں ہندو مندروں میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ میڈیا کا ایک حصہ بھی ایسی مہمات کی حمایت کرکے پرامن ماحول کو خراب کر رہا ہے۔
جماعت اسلامی ہند نے مطالبہ کیا کہ ’’ہندوستان کے وزیر داخلہ کو فوری طور پر یہ بیان دینا چاہیے کہ حکومت عبادت گاہوں کے سے متعلق 1991 کے قانون کو برقرار رکھنے کے لیے پوری طرح پابند ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی مسجد، مندر، چرچ یا عوامی عبادت کی حیثیت وہی رہے گی جو کہ 15 اگست 1947 کو اس کی حیثیت تھی، اور عدالت یا حکومت اسے تبدیل نہیں کر سکتی۔‘‘
انھوں نے کہا ’’حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ جو بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوشش کرے گا، اس کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔‘‘
جماعت اسلامی ہند نے مدھیہ پردیش کے مانسا قصبہ میں بھنور لال جین نامی ایک بزرگ کو مسلمان ہونے کے شبہ میں مار ڈالنے کے واقعہ کی بھی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ متاثرین کے اہل خانہ کو مناسب معاوضہ دیا جائے اور ان کی بازآبادکاری کا انتظام کیا جائے اور اس معاملے میں قصورواروں کو سخت سزا دی جائے.
جسم فروشی پر سپریم کورٹ کے تبصرے سے اختلاف کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ باوقار زندگی کے حق کی آئینی ضمانت کے مطابق برتاؤ کرے۔
پروفیسر محمد سلیم نے کہا کہ ’’جماعت اسلامی ہند سپریم کورٹ کے حالیہ حکم سے سختی سے اختلاف کرتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جنسی کام اور جسم فروشی کو بطور پیشہ قبول کیا جانا چاہیے۔‘‘
انھوں نے کہا ’’جماعت اسلامی ہند کا ماننا ہے کہ جسم فروشی، چاہے بالغ جنسی کارکنوں کی رضامندی سے ہو یا جبری جسم فروشی، ایک اخلاقی جرم ہے جو معاشرے کے اخلاقی تانے بانے کو نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ عورتوں اور انسانوں کے وقار کے خلاف ہے۔‘‘
جماعت اسلامی نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں مہنگائی عام آدمی کی جیبیں خالی کر رہی ہے۔ سبزیوں، خوردنی تیل، غذائی اجناس، پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں متوسط طبقے اور غریبوں کے لیے اپنا گھر چلانا انتہائی مشکل بنا رہی ہیں۔‘‘
جماعت اسلامی نے کہا کہ ’’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق ہندوستان بدعنوانی انڈیکس میں 180 ممالک میں سے 85 ویں نمبر پر ہے۔ محض یہ دعویٰ کر کے کہ ہم سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت ہیں یا ہماری افراط زر دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہے، اس حقیقت کو چھپایا نہیں جاسکتا کہ ہم بہت سے میکرو اکنامک اشاریوں میں پیچھے ہیں اور عام آدمی مہنگائی، بے روزگاری اور بدعنوانی کا شکار ہے۔‘‘
جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ ’’ہم یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ فرقہ وارانہ کشیدگی، گالی گلوچ اور تضحیک آمیز زبان اور پولرائزیشن ملک کو معاشی اور سماجی نقصان پہنچا رہی ہے جو کہ ملک کے جمہوری تانے بانے کو برقرار رکھنے کے لیے اچھی علامت نہیں ہے۔‘‘