۔۔۔ اب سنبھل کی جامع مسجد کے مندر ہونے کادعویٰ،ضلعی عدالت کے حکم سے سروے کا آغاز
وشنو شنکر جین نے عرضی داخل کر کے ہری ہر مندر ہونے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ بابر نے مندر کو منہدم کر کے مسجد میں تبدیل کیا
نئی دہلی ،19 نومبر :۔
دائیں بازو کی نظریات کی حامل شدت پسند ہندو تو نواز تنظیموں کی جانب سے ملک بھر کی تاریخی قدیم مساجد پر مندر ہونے کی دعویداری کا سلسلہ مزید دراز ہوتا جا رہا ہے۔ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کے بعد حوصلہ افزا ہندوتو نوازوں نے بارہ بنکی کے بعد اب سنبھل کی جامع مسجد پر بھی مندر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ضلعی عدالت میں عرضی داخل کی اورعدالت نے بھی معاملے کی فوری سماعت کرتے ہوئے سروے کا حکم جاری کر دیا ۔ حکام نے عدالت کے فرمان کے بعد فوری سروے کا اغاز بھی کر دیا ہے۔اس سلسلے میں عدالت نے کمشنر کو سروے کا حکم دیا ہے۔
اس پورے معاملے میں جس مستعدی کے ساتھ عدالت اور مقامی انتظامیہ نے سروے کا کام شروع کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام ادارے اسی بات کا انتظار کر رہے تھے۔ بہر حال دیر رات عدالت کے حکم کے بعد حکام مسجد میں سروے کے لئے بڑی تعدا د میں پولیس اہلکاروں سے ساتھ پہنچے۔ پورٹ کے مطابق دیر شام تک سروے کا کام آج مکمل کیا گیا ۔تقریباً دو گھنٹے تک تمام کمیٹی ممبران ایس ڈی ایم اور کورٹ کمشنر کی موجودگی میں سروے کیا گیا ۔مسجد کے تمام حصوں کی فوٹو گرافی کی گئی ۔
رپورٹ کے مطابق ایڈوکیٹ وشنو شنکر جین کی طرف سے دائر درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جو جگہ اس وقت جامع مسجد کے نام سے جانی جاتی ہے وہ پہلے ایک ہندو مندر تھا، جسے 1529 میں مغل بادشارہ بابر نے مسمار کر کے مسجد میں تبدیل کر دیا تھا۔ اس عرضی میں عدالت سے مسجد کا سروے کرانے کا مطالبہ کیا گیا تھا، جسے سنبھل کی ضلع عدالت نے منگل (19 نومبر 2024) کو قبول کر لیا تھا اور ایڈوکیٹ کمشنر کو سروے کا حکم دیا تھا۔
ایڈوکیٹ وشنو شنکر جین نے عدالت کے فیصلے کو شیئر کیا۔ درخواست میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ جگہ قدیم زمانے میں ہری ہر مندر کے نام سے مشہور تھی۔ وشنو شنکر نے بتایا کہ 1529 میں بابر نے اس جگہ کو گرا کر مسجد بنائی تھی۔ اسی پوسٹ میں انہوں نے ہندوؤں کے عقیدے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ بھگوان کلکی مستقبل میں اسی مقام پر اوتار لیں گے۔
انہوں نے اس معاملے میں اتر پردیش حکومت، حکومت ہند، محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی)، سنبھل کے ضلع مجسٹریٹ اور جامع مسجد کمیٹی کو فریق بنایا ہے۔ ہندو فریق نے اس جگہ کو بطور مسجد استعمال کرنے پر اعتراض کیا ہے کیونکہ یہ اے ایس آئی کی محفوظ جگہ ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ فی الحال ہری ہر مندر کو غلط طریقے سے مسجد کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
درخواست میں انہوں نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ انڈین سول پروسیجر کوڈ (سی پی سی) کے آرڈر 26 کے رول 9 اور 10 کے تحت ایک ایڈووکیٹ کمشنر کی تقرری کرکے متنازعہ جگہ کا سروے کرایا جائے۔ ان کا مطالبہ مانتے ہوئے عدالت نے ایڈوکیٹ کمشنر کو سروے کے لیے مقرر کیا ہے۔