۔۔اور اب تاج محل ،سالانہ عرس پر پابندی کیلئے کورٹ میں عرضی

آئندہ 6 فروری سے شروع ہونے والے عرس پر پابندی کیلئے ہندو مہا سبھا نے مقامی عدالت میں عرضی داخل کی ،دو دن میں جواب طلب

نئی دہلی ،03 فروری :۔

بابری مسجد پر رام مندر کی تعمیر کے فوراً بعد گیان واپی معاملے میں ہوئی عدالتی کارروائی کےخلاف مسلمانوں میں مایوسی کے درمیان اب آگرہ کا تاج محل بھی تنازعہ میں آ گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق  اکھل بھارت ہندو مہاسبھا نے دنیا کے عجائبات میں سے ایک تاج محل میں سالانہ عرس منعقد کرنے کے خلاف یہاں کی عدالت میں عرضی دائر کی ہے۔عرضی میں مہا سبھا نے عرس پر سوال کھڑے کئے ہیں ۔عدالت نے اس معاملے میں آرگنائزنگ کمیٹی کو نوٹس دیتے ہوئے دو دن میں جواب طلب کیا ہے آئندہ سماعت چار مارچ کو طے کی ہے۔

خیال رہے کہ تاج محل میں شاہجہاں کا عرس 6 فروری سے شروع ہونے والا ہے۔یہ عرص ہر سال مقامی عرس کمیٹی کے زیر اہتمام منعقد کیا جاتا ہے ، اس دوران عرس میں شرکت کرنے والوں کو ٹکٹ سے چھوٹ بھی دی جاتی ہے۔یہ عرس تین دن تک ہوتا ہے ،یعنی 8 فروری تک عرس جاری رہے گا۔

مہاسبھا کے وکیل انیل تیواری نے جمعہ کو کہا کہ یہ عرضی مہاسبھا میں چوتھی ایڈیشنل سول جج جونیئر ڈویژن جسٹس گریما سکسینہ کی عدالت میں دائر کی گئی تھی، جس پر جج نے امین مقرر کرتے ہوئے جواب طلب کیا ہے۔مہا سبھا کے عرضی گزار نے عرس کے دوران مفت انٹری کو بھی چیلنج کیا ہے۔

مہاسبھا کے قومی ترجمان سنجے جاٹ نے کہا کہ مورخ راج کشور راجے نے آر ٹی آئی میں یہ معلومات مانگی تھی کہ تاج محل میں برسوں سے منعقد ہونے والے عرس کے لیے کس کے احکامات ہیں۔ جواب ملا کہ عرس کے لیے نہ مغلوں کی طرف سے، نہ انگریزوں کی طرف سے، نہ حکومت ہند کی طرف سے کوئی حکم آیا ۔ اس جواب کے بعد اکھل بھارت ہندو مہاسبھا نے عدالت میں اپیل کی۔

واضح رہے کہ تاج محل پر ہندو تنظیموں کی جانب سے پہلےہی اسے ہندو مندر ہونے کے  بے بنیاد دعوے کئے جا تے رہے ہیں ۔ان کا دعویٰ ہے کہ یہ شیو کا مندر ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ اس کا نام تیجو مہالیہ تھا جسے بدل کر تاج محل کر دیا گیا ہے۔گیان واپی تنازعہ کے درمیان تاج محل پر نئی عدالتی بحث سماج میں مزید کشیدگی کو جنم دیگی۔