یہ کہنا غلط ہے کہ ججوں کو قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے: جسٹس اجل بھوئیاں

نئی دہلی ،05 جولائی :۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس اجل بھوئیاں نے  گزشتہ روز ایک پروگرام کے دوران اراکین پارلیمنٹ اور دیگر عوامی نمائندوں کے ذریعہ پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین پر عدالتوں اور سپریم کورٹ کے تنقید اور مداخلت کو غیر قانونی قرار دینے کے تبصروں اور رویئے پر سخت تنقید کی  اور اس خیال کو واضح طور پر مسترد کر دیا کہ غیر منتخب ججوں کو قانون سازی کے عمل میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

سپریم کورٹ کے سابق جج ابھے ایس اوکا کے لیے مہاراشٹرا اور گوا بار کونسل کے زیر اہتمام ایک الوداعی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس بھوئیاں نے کہا کہ اس طرح کی سوچ کی کوئی قانونی یا آئینی بنیاد نہیں ہے۔ رپورٹ  کے مطابق، انہوں نے واضح کیا کہ  بھارتی آئین سپریم کورٹ کو اختیار دیتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین پر نظرثانی کرے اور اگر ضرورت پڑی تو وہ آئینی اقدار سے ہم آہنگ نہ ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میری رائے میں اس تنقید کی کوئی قانونی یا آئینی بنیاد نہیں ہے کہ آئینی عدالتوں کے غیر منتخب ججوں کو عوام کے منتخب نمائندوں کی طرف سے قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اس کی وجہ یہ ہے کہ آئین نے سپریم کورٹ کو یہ جانچنے کا اختیار دیا ہے کہ آیا پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون آئینی تقاضے کے مطابق ہے یا نہیں اور اگر نہیں تو وہ عدالتی نظرثانی کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ایسے قانون کو منسوخ کر سکتی ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ "میرے خیال میں یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ آئینی عدالتوں کے غیر منتخب ججوں کو قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ آئین نے سپریم کورٹ کو اختیار دیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین کا جائزہ لے اور اگر وہ آئین کے مطابق نہیں تو انہیں منسوخ کر دے، یہ عدالتی نظرثانی کے اختیار کا حصہ ہے۔

جسٹس بھوئیاں نے سابق مرکزی وزیر قانون ارون جیٹلی کی تنقید کا بھی حوالہ دیا، جس میں انہوں نے سپریم کورٹ کے نیشنل جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کمیشن (این جے اے سی) ایکٹ کو منسوخ کرنے پر اعتراض کیا تھا۔ارون جیٹلی نے تب کہا تھا کہ جج عوام کے ذریعے منتخب نہیں ہوتے ہیں، جب کہ پارلیمنٹ کے اراکین عوام کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں، اس لیے عدالت کو عوام کی مرضی کا احترام کرنا چاہیے تھا۔

اس پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے جسٹس بھوئیاں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے این جے اے سی پر ضرب لگاتے ہوئے آئین کی طرف سے دی گئی عدالتی نظرثانی کی طاقت کا استعمال کیا، جو عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔آخر میں انہوں نے کہا کہ ملک کو آزاد عدلیہ کو برقرار رکھنے کے لیے نڈر اور اصول پسند ججوں کی ضرورت ہے۔