یکساں سول کوڈ ہندوستانی معاشرے کے تنوع کے لیے خطرہ  

 جماعت اسلامی ہند کی جانب سے لاء کمیشن کو تجاویز ارسال، لاء کمیشن کو اپنے سابقہ ​​موقف کو برقرار رکھنے کا مشورہ

نئی دہلی،17جولائی :۔

یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ پر بحث کے درمیان ایک طرف جہاں مسلم پرسنل لاء بورڈ سیاسی رہنماؤں اور مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے ملاقات کر کے اپنے موقف کی حمایت کی اپیل کر رہا ہے وہیں  ہندوستان کی سب سے بڑی  اور عملی طور پر فعال مسلم تنظیم جماعت اسلامی ہند   نے بھی لاء کمیشن کو اپنی تجاویز ایک خط  لکھ کر  ارسال کی ہے ۔جس میں جماعت اسلامی ہند نے  کہا ہے کہ ہندوستان جیسے کثیر مذہبی اور کثیر الثقافتی ملک میں عقیدے اور روایتی طریقوں کو پس پشت ڈال کر یکساں سول کوڈ نافذ کرنا نہ صرف  مفید نہیں ہوگا بلکہ ہندوستان کے سماجی تانے بانے  کےلئے نقصاندہ اورقومی یکجہتی کے لیے خطرہ بھی پیدا کرے گا۔

یہ  خط یکساں سول کوڈ کے موضوع پر تجاویز طلب کرنے والے عوامی نوٹس کے جواب میں لاء کمیشن آف انڈیا کے ممبر سکریٹری کو لکھا گیا ہے ۔جماعت اسلامی ہند کے قومی نائب صدر ملک معتصم خان کے دستخط شدہ اس خط میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پرسنل لاز میں اصلاحات یا نظرثانی کا کوئی بھی عمل صرف اس صورت میں پائیدار ہوگا جب یہ اندر سے  انجام دیا جائے۔خط میں کہا گیا ہے کہ قانونی مینڈیٹ کے ذریعے کوئی بھی اصلاحات نافذ کرنا غیر متوقع رکاوٹ پیدا کرے گا اور انصاف کے اہداف کے حصول میں ناکام ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ "کسی فرد کے اپنے ضمیر کی آواز پر چلنے کے حق کی صریح خلاف ورزی ہوگی۔

جماعت اسلامی نے لاء کمیشن کو اپنے سابقہ ​​موقف کو برقرار رکھنے کا مشورہ دیا اور حکومت ہند سے سفارش کی کہ وہ پرسنل لاء میں مداخلت کی کسی بھی غیر سوچی سمجھی کوشش سے باز آجائے کیونکہ یہ صریح  طور پر ممکن ہےکہ یہ ہندوستان کے ‘تنوع میں اتحاد’ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ، 21 ویں لاء کمیشن نے 2016 اور 2018 کے درمیان اسی طرح کی مشق کی تھی، جس کے بعد اس نے ایک تفصیلی مشاورتی مقالہ نکالا تھا، جس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کا نفاذ  ’ نہ تو یہ ضروری تھا وارنہ ہی مطلوبہ۔

خط میں 21 ویں لاء کمیشن کے نتیجے کو دہرایا گیا ہے جس میں لکھا گیا ہے، "اس تنازعہ کو حل کرنے کا مطلب اختلافات کو ختم کرنا نہیں ہے۔ زیادہ تر ممالک اب فرق کو تسلیم کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں، اور یہ فرق محض تفریق کے مترادف نہیں ہے بلکہ یہ مضبوط جمہوریت کی  ایک علامت بھی ہے  ہے۔

جماعت اسلامی ہند کے بیان میں ایک تازہ مشق پر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے جو اس انداز میں کی جا رہی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ پچھلے لاء کمیشن کی تیار کردہ دستاویز کے نتائج کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔خط میں الزام لگایا گیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یو سی سی کے ارد گرد ہونے والی سرکاری بات چیت میں مشاورتی دستاویزات  کو سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے جماعت اسلامی ہند نے لاء کمیشن سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے سابقہ ​​موقف کو برقرار رکھے اور حکومت ہند سے سفارش کرے کہ وہ پرسنل لاء میں مداخلت کی کسی بھی گمراہ کن کوشش سے باز رہے۔

جماعت نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’ہم پہلی نظر میں محسوس کرتے ہیں کہ یکساں سول کوڈ کا مفہوم  غیر یقینی اور غیر واضح ہے۔ بہت  تضاد ہیں جو کام کو پیچیدہ بناتی ہیں اور غیر جانبدارانہ اور جامع رائے دینا تقریباً ناممکن ہے، مزید یہ کہ یکسانیت کا نظریہ ہندوستان کے متنوع اور تکثیری سماجی، ثقافتی اور مذہبی ورثے کے ساتھ ساتھ ‘تنوع میں اتحاد’ سے متصادم ہے۔ لہٰذا، آرٹیکل 44 میں موجود ہدایتی اصولوں پر عمل درآمد کا کوئی بھی طریقہ اگر آرٹیکل 25 یا آرٹیکل 29 کے تحت شہری کے حقوق سے متصادم ہو تو وہ آئین کے دائرہ کار سے باہر ہوگا۔

جماعت نے کہا کہ جہاں تک مسلم پرسنل لا کا تعلق ہے، یہ واضح کیا جانا چاہیے کہ شادی، طلاق،  وراثت اور اس سے متعلقہ معاملات میں اسلامی قوانین کی پیروی کو مسلمانوں کا ایک مذہبی فریضہ سمجھا جاتا ہے، اور ان  پر ‘عمل’  مذہبی قانون کا ایک لازمی پہلو  بھی سمجھا جاتا ہے، جسے آئین کے آرٹیکل 25 کے ذریعے تحفظ حاصل ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ ہمارا پختہ یقین ہے کہ اس طرح کی مداخلت ہندوستان کے تنوع میں اتحاد کو ممکنہ طور پر نقصان پہنچا سکتی ہے۔