یکساں سول کوڈکا نفاذ کسی بھی صوبائی حکومت کے دائرہ اختیارمیں نہیں
آئندہ تاریخ کوہم اسٹے پر ہی بحث کریں گے،اتراکھنڈہائی کورٹ کی خصوصی بینچ کے سامنے جمعیةعلماءہند کے وکیل کپل سبل کی دلیل
![](https://dawatnews.net/wp-content/uploads/2025/02/UCC.jpg)
نئی دہلی ،14فروری
اتراکھنڈمیں یکساں سول کوڈکے نفاذ کے خلاف جمعیةعلماءہند کی طرف سے داخل کی گئی اہم پٹیشن میں آج سینئرایڈوکیٹ کپل سبل اوروکیل آن ریکارڈفضیل احمد ایوبی اتراکھنڈہائی کورٹ کی اس خصوصی بینچ کے سامنے پیش ہوئے جو چیف جسٹس جی نریندراورجسٹس آلوک مہراپر مشتمل ہے ، مسٹر کپل سبل نے بینچ کے سامنے دواہم باتیں رکھیں ، پہلی یہ کہ لسٹ تھری انٹری 5کے تحت کسی صوبائی حکومت کو یکساں سول کوڈبنانے اوراسے نافذ کرنے کا کوئی اختیارنہیں ہے یہاں تک کہ دفعہ 44بھی کسی صوبائی حکومت کو اس طرح کی قانون سازی کی اجازت نہیں دیتی ، مسٹرسبل نے دوسری بنیادی بات یہ کہی کہ جو قانون لایا گیاہے اس سے شہریوں کے ان بنیادی حقوق کی صریحاخلاف ورزی ہوتی ہے جو انہیں آئین کی دفعہ 14۔19۔21اور25میں دیئے گئے ہیں ، مسٹرسبل نے عدالت سے یکساں سول کوڈپر اسٹے لگانے کی درخواست کی اتراکھنڈحکومت کے وکیل نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے جواب داخل کرنے کے لئے وقت طلب کیااس پرعدالت نے صوبائی حکومت کوایک نوٹس جاری کرکے اپنا جواب داخل کرنے کی ہدایت دی، آئندہ سماعت یکم اپریل 2025کوہوگی ، مسٹرسبل نے چیف جسٹس سے یہ بھی کہاکہ آئندہ تاریخ پرہم اسٹے پر ہی بحث کرینگے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ چونکہ یکساں سول کوڈکی بعض دفعات میں سزااورجرمانے کا بھی التزام ہے اس لئے اس پر اسٹے لگناضروری ہے ، اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ اگر اس مدت کے دوران اس طرح کاکوئی معاملہ پیش آتاہے توہم آپ کو اجازت دیتے ہیں کہ آپ فوری طورپر اسے عدالت کے علم میں لائیں ، بینچ نے یہ بھی کہا کہ اگراس قانون سے کوئی انفرادی طورپر متاثرہوتاہے یااس قانون کے تحت کسی کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے تووہ بینچ سے رجوع کرسکتاہے ، قابل ذکر ہے کہ اتراکھنڈاسمبلی میں یکساں سول کوڈکی منظوری کے تقریبا ایک سال بعد گزشتہ 27 جنوری 2025کو وزیراعظم نریندرمودی کی موجودگی میں باضابطہ طورپر نافذ کردیاگیا اس طرح اتراکھنڈیکساں سول نافذ کرنے والی ملک کی پہلی ریاست بن گئی ، مولانا ارشدمدنی کی ہدایت پر جمعیةعلماءہند نے اس قانون کو اتراکھنڈہائی کورٹ میں چیلنچ کیا ہے جس پر آج ابتدائی سماعت ہوئی۔ آج کی قانونی پیش رفت پر اپنے ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ ہندوستان جیسے عظیم جمہوری ملک میں ایک سیکولر آئین کے موجودرہتے ہوئے جس طرح یہ قانون لایا گیا وہ جانبداری ، امتیازاورتعصب کا مظہر ہے ہی نہیں آئین کی بعض دفعات کا حوالہ دیکر جس طرح قبائل کو اس قانون سے الگ رکھاگیا وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمانوں کی سماجی اورمذہبی شناخت کو مجروح اورختم کرنے کی غرض سے ہی یہ قانون وضع کیا گیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئین نے اقلیتوں کو بھی خصوصی اختیارات دیئے ہیں مگر ان کا لحاظ نہیں رکھاگیا ، یہی نہیں عام شہریوں کو بھی آئین میں بنیادی حقوق فراہم کئے گئے ہیں ، چنانچہ یہ قانون شہریوں کے بنیادی حقوق کی نفی کرتاہے ، مولانا مدنی نے آگے کہا کہ آج کی ابتدائی سماعت میں ہمارے وکیل کی جانب سے اس نقطہ کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہے امید افزابات یہ ہے کہ کچھ انصاف پسند غیرمسلموں نے بھی اس کے خلاف عرضیاں داخل کی ہیں جس میں انہوں نے بھی امتیاز، تعصب اوربنیادی حقوق کا معاملہ اٹھایاہے ، اس لئے ہم امید کرتے ہیں کہ یکم اپریل کو اس پر نہ صرف ایک مثبت بحث ہوگی بلکہ عدالت اس پر اسٹے لگادے گی چونکہ اس طرح کے قانون سے آئین کی بالادستی ہی نہیں مجروح ہوئی ہے بلکہ شہریوں کے آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق پر بھی گہری ضرب لگی ہے۔