یو پی کی مساجد میں لاؤڈ اسپیکروں کے خلاف پولیس کی کارروائی میں تیزی

رمضان کے دوران مساجد سے افطار اور سحری کے اعلان کے خلاف پولیس کا کریک ڈاؤن

مشتاق عامر

نئی دہلی ،12 مارچ :۔

یو پی میں مساجد میں لگنے والے لاؤڈاسپیکروں کے خلاف پولیس کی کارروائیوں میں تیزی آگئی ہے ۔ مسجدوں سے ہونے والے افطار اور سحری کے اعلان پر پولیس تادیبی کارروائی کر رہی ہے ۔عدالت کا حکم اور صوتی آلودگی کی آڑ میں پولیس مساجد کے ذمہ داران اور مقامی مسلمانوں کے خلاف سنگین دفعات کے تحت مقدمات درج کر رہی ہے اور ان کو گرفتار کیا جا رہا ہے ۔یو پی میں لاؤڈ اسپیکر سے اذان دینا یا کوئی اعلان کرنا ایک ایسا جرم بن چکا ہے جس کی زد میں صرف مساجد کے ذمہ داران اور عام مسلمان ہیں ۔

لاؤڈ اسپیکر سے اذان پر تنازعہ 2017 میں اس وقت کھڑا کیا گیا تھا جب مشہور گلوکار سونو نگم نے ٹویٹ کیا کہ صبح سویرے اذان کی آواز سے ان کی نیند میں خلل پڑتا ہے۔سو نو نگم کوممبئی میں اپنی رہائش گاہ سے دور مسجد کی اذان سے نیند میں خلل پڑ رہا تھا ۔ اس واقعے کے بعد  ملک کی مختلف ریاستوں خاص کر اتر پردیش میں مساجد کے لاؤڈ اسپیکروں پر آفت آ گئی ۔یو پی کے کئی اضلاع میں مقامی پولیس نے مساجد کے لاؤڈ اسپیکروں کی آواز کم کرا دی یا ان کی تعداد کو محدود کر دیا گیا۔یہ ساری کارروائی مقامی پولیس انتظامیہ اپنے طریقے سے کر رہی تھی ۔اس بارے میں یوپی حکومت کی طرف سے باضابطہ کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا گیا تھا۔کووڈ میں لاک ڈاؤن کے دوران یو پی کے مختلف اضلاع میں پولیس نے لاؤڈ اسپیکر سے اذان دینے پر پابندی لگا دی تھی ۔اس دوران کئی مساجد کے ذمہ داران کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا ۔  پولیس کے اس رویے کے خلاف مسلمانوں نے الہ آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا ۔لیکن اس سے معالہ اور الجھ گیا۔ مئی 2022 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا  کہ’’ مساجد میں لاوڈ اسپیکر کا استعمال بنیادی حقوق کے تحت محفوظ نہیں ہے۔ عدالتوں نے واضح کر دیا ہے کہ نماز ادا کرنا بنیادی حق ہےلیکن لاوڈ اسپیکر کا استعمال لازمی مذہبی عمل نہیں ہے‘‘۔عدالت کے اس فیصلے کے بعدمسجدوں میں لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعے اذان دینا اور بھی مشکل ہو گیا ۔

لاؤڈ اسپیکر سے اذان کے خلاف صرف شر پسند عناصر ہی پیش پیش نہیں تھے بلکہ اکثریتی سماج کا وہ طبقہ بھی اس بھیڑ میں شامل ہو گیا جو روشن خیال اور معتدل تصور کیا جاتا تھا ۔ اس کی بدترین مثال الہ آباد کی ہے جہاں الہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر سنگیتا سریواستو نے اذان کے خلاف شکایت درج کرا کے اس مسئلے کو ایک نیا رخ دیا۔انہوں نے ضلع مجسٹریٹ کو ایک خط لکھا کہ ان کی رہائش گاہ کے قریب جو مسجد ہے اس کی اذان کی آواز سے نیند میں خلل واقع ہوتا ہے ۔انہوں نے مسجد کے لاؤڈ اسپیکر پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اونچی آواز میں اذان کی وجہ سے ان کی نیند خراب ہوتی ہے اور یہ کہ اس کے شور سے آلودگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔مقامی پولیس نے ان کی شکایت کا فوری تدارک کرتے ہوئے مسجد سے لاؤڈ اسپیکر اتروا دیا ۔ سنگیتا سروی واستو الہ آباد کے سول لائنس علاقے میں عرصے سے رہ رہی لیکن ان کو اس سے پہلے اذان کی آواز سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی تھی۔ان واقعات کے بعد یو پی میں آئے دن مسجد سے لاؤڈ اسپیکر سے اذان دینے کے معاملے میں کوئی نہ کوئی تنازعہ پیدا ہو نے لگا ۔

مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان دینے کے خلاف پولیس انتظامیہ اور عدالت کا رویہ ایک جیسا رہا ہی رہا ہے۔خاص طور سے ہر سال رمضان کے دنوں میں مساجد کے خلاف پولیس کی کارروائیوں میں غیر معمولی تیزی آ جاتی ہے ۔گذشتہ کئی ماہ سے سنبھل کی شاہی جامع مسجد شر پسندوں کے نشانے پر رہی ہے ۔سنبھل میں ایک مسجد کے امام کے خلاف مبینہ طور پر لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے مقررہ ڈیسیبل حد سے زیادہ آواز میں اذان دینے پر مقدمہ درج کر لیا گیاہے۔ پولیس نے مسجد سے لاوڈ اسپیکر بھی ضبط کر لیا ہے۔یہ کارروائیاں ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب سنبھل کے ایک سینئر پولیس افسر  انوج کمار چودھری نے متنازعہ بیان دیتے ہوئے مسلمانوں کو ہولی کے دن گھروں میں رہنے کا مشورہ دیا اگر وہ اپنے اوپر رنگ ڈالے جانے کو برداشت نہیں کر سکتے۔ سنبھل ضلع کے چندوسی علاقے کے پنجابیان محلے کی مسجد کے امام حافظ شکیل شمسی  خلاف عوامی خلل اندازی اور سرکاری احکامات کی خلاف ورزی کے الزامات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ ان پر صوتی آلودگی سے متعلق ضابطہ 2000 کے سیکشن 5 کے تحت بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے جو امن عامہ اور لاوڈ اسپیکروں پر پابندی سے متعلق ہے۔ ایف آئی آر کرانے والے کا نسٹیبل جیتندر کمار نے رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ دورانِ گشت انہوں نے امام کو اذان بلند آواز میں دیتے ہوئے پایا جو کہ عدالتوں اور حکومت کی جانب سے صوتی آلودگی سے متعلق دی گئی گائڈ لائن کے خلاف ہے۔

اتر پردیش وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ

جنوری میں بھی ضلع کی دو مساجد کے اماموں کے خلاف اسی طرح کے الزامات میں مقدمے درج کیے گئے تھے۔ 17 جنوری کو حیات نگر میں امام مفتی ریاض الحق کے خلاف اس وقت مقدمہ درج کیا گیا جب پولیس نے دوپہر 3:30 بجے جامع مسجد سرائے ترین کے قریب گشت کے دوران انہیں ڈیسیبل حد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پایا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ انہیں پہلے زبانی طور پر وارننگ دی گئی تھی لیکن انہوں نے ہدایات کی کھلی خلاف ورزی کی۔اسی دوران اتر پردیش کے ضلع رام پور میں ایک مسجد میں افطار کا اعلان لاوڈ اسپیکر پر کیے جانے پر  مقامی شر پسند عناصر نےتنازعہ کھڑا کر دیا۔ یہ واقعہ ٹانڈا پولیس اسٹیشن کے سید نگر چوکی علاقے کے مانک پور بجاریہ گاؤں میں پیش آیا جس کے بعد ایک ہندوتو وادی تنظیم کے افراد نے احتجاج کیا۔ اس معاملے میں پولیس نے مقامی مسلمانوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے مسجد کے امام سمیت نو افراد کو گرفتار کر لیا۔پولیس نے لاوڈ اسپیکر کو مسجد سے ہٹا دیا اور روزہ اور سحری کے لیے ہونے والے اعلان کو "نئی روایت” قرار دے کر اس پر پا بندی لگا دی ۔ یہ مسجد گزشتہ 15 سے 20 سالوں سے تقریباً 20 مسلم خاندانوں کی عبادت گاہ رہی ہے۔پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے نو افراد کو گرفتار کر لیا اور ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ پولیس (اے ایس پی) اتل کمار شریواستو نے کہا، "لاؤڈ اسپیکر پر افطار کے اعلان کے بعد تنازعہ پیدا ہوا۔ نو افراد کو امن و امان برقرار رکھنے کے لیے گرفتار کیا گیا۔”

آر درج کی گئی ہے۔ ان پر صوتی آلودگی سے متعلق ضابطہ 2000 کے سیکشن 5 کے تحت بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے جو امن عامہ اور لاوڈ اسپیکروں پر پابندی سے متعلق ہے۔ ایف آئی آر کرانے والے کا نسٹیبل جیتندر کمار نے رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ دورانِ گشت انہوں نے امام کو اذان بلند آواز میں دیتے ہوئے پایا جو کہ عدالتوں اور حکومت کی جانب سے صوتی آلودگی سے متعلق دی گئی گائڈ لائن کے خلاف ہے۔

مقامی مسلمانوں نے اس گرفتاری پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور سوال اٹھایا کہ جب دیگر مذہبی تقریبات کے اعلانات لاوڈ اسپیکر پر ہوتے رہے ہیں تو پھر افطار کے اعلان کو نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟ رامپور کےمعروف عالم دین مولانا رشید احمد نے کہا، "یہ واضح طور پر ایک مخصوص طبقے کو نشانہ بنانے کا معاملہ ہے۔ عبادت گاہوں سے اعلانات ہمیشہ سے مذہبی روایات کا حصہ رہے ہیں۔ قانونی ماہر اور سماجی کارکن ایڈووکیٹ شارق انور نے پولیس کے اس اقدام کی مذمت کی اور کہا کہ "یہ گرفتاری اور لاوڈ اسپیکر کی ضبطی ایک خطرناک مثال قائم کرتی ہے۔ اس طرح کے امتیازی اقدامات مذہبی آزادی اور مساوی سلوک کے اصولوں کے لیے خطرہ ہیں۔”