یو پی میں اردو کی سرکاری حیثیت ختم کرنے کی تیاری ؟
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی اردو دشمنی ،ایوان میں اردو کے خلاف قابل اعتراض تبصرہ کے بعد اردو طبقے میں تشویش

دعوت ویب ڈیسک
نئی دہلی ،19 فروری :۔
اردو کو یو پی کی دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے ۔ لیکن ریاست کی یوگی حکومت کو اردو سے حد درجے کا بیر ہے۔وہ اس حیثیت کو ختم کرنے کے در پے ہے ۔مسلمان اور اردو کا نام سنتے ہیں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے اندر نفرت کا شعلہ بھڑک اٹھتا ہے۔ایسا ہی نظارہ گزشتہ کل اتر پردیش اسمبلی میں دیکھنے کو ملا جب وزیر اعلیٰ نے اردو کو کٹھ ملوں کی زبان کہہ کر نہ صرف توہین آمیز تبصرہ کیا بکہ اس کی سرکاری حیثیت پر ہی سوال کھڑے کر دئے ہیں ۔وزیر اعلیٰ نے سماج وادی پارٹی پر نشانہ سادھتے ہوئے کہا کہ یہ اپنے بچوں کو تو انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھائیں گے لیکن ’’دوسروں ‘‘ کے بچوں کو کہیں گے کہ ان کو اردو پڑھاؤ یعنی ان کو مولوی بنانا چاہتے ہیں ۔ان کو کٹھ ملا بنانا چاہتے ہیں ۔یہ نہیں ہونے دیا جائے گا ۔
وزیر اعلیٰ 18؍ فروری کو بجٹ اجلاس کے پہلے دن ہی اسمبلی میں اردو کے خلاف اپنے نفرت انگیز جذبات کا اظہار کر دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ بجٹ اجلاس کے دوران سماج وادی پارٹی کی طرف سے اٹھائے گئے سوالوں کا جواب دے رہے تھے ۔ اس پہلے اپوزیشن لیڈر ماتا پرساد پانڈے نے اسمبلی میں سوال اٹھایا تھا کہ اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کا ترجمہ انگریزی کے بجائے اردو میں بھی کرایا جائے ۔ ماتا پرساد پانڈے نے کہا کہ ’’ہم علاقائی زبانوں کی مخالف نہیں ہیں۔ لیکن اس اسمبلی میں انگریزی کا استعمال مناسب نہیں ہے کیونکہ اسے طویل جدوجہد کے بعد سرکاری زبانوں سے ہٹا دیا گیا تھا۔ انگریزی کو متعارف کروا کر ہندی کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انگریزی کو یہاں میڈیم نہیں ہونا چاہیے۔ آپ اس کی بجائے اردو کو متعارف کروا سکتے ہیں‘‘۔ماتا پرساد پانڈے کی زبان سے اردو کا نام سنتے ہی وزیر اعلیٰ یوگی آگ بگولہ ہو گئےاور انہوں نے کھڑے ہوکر یو پی کی علاقائی زبانوں ،اودھی ، برج اور بندیل کھنڈی کو فروغ دینے کی بات کہی اور اردو کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے کٹھ ملوں کی زبان قرار دے دیا ۔سی ایم یوگی اپنے اردو مخالف جذبات کے دوران یہ بھول گئے کہ اردو ریاست کی دوسری سرکاری زبان ہے ۔ سرکاری ضابطے کے مطابق اسمبلی کی کارروائی ہندی کے بعد اردو میں انجام دی جانی چاہئے ۔اتر پردیش اردو اکادمی اور فخر الدین علی احمد کمیٹی یو پی کے دو ایسے سرکاری ادارے ہیں جو اردو کے فروغ کے لیے کام کرتے ہیں ۔تاریخی اعتبار سے لکھنؤ اردو زبان و ادب کا مرکز رہا ہے ۔درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں ایسے ہندو ادیب اور شاعر ہوئے ہیں جنہوں نے پوری زندگی اردو کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔مطبع منشی نول کشور تقریباً ایک صدی تک اردو کا سب سے بڑا شاعتی ادارہ رہا ۔یہاں سے کلاسکی ادب کی سینکڑوں کتابیں شائع ہوئیں۔
پنڈت رتن سر شار ، منشی دیا شنکر نسیم ، موہن لال رواں ، پنڈت برج نارائین چکبست ، منشی پریم چند ، منشی دیا نارائین نگم ، پنڈت رادھے ناتھ گلشن ،ڈاکٹر تارا چند ، پنڈت آنند نارائین ملا ، رگھو پتی سہائے فراق گورکھپوری ، ڈاکٹر گیان چند جین ، مالک رام ، کالی داس گپتا رضا اور گوپی چند نارنگ ان سینکڑوں ناموں سے صرف چند نام ہیں جن کی شناخت اردو زبان و ادب کے کے حوالے سے ہے۔یوگی آدتیہ ناتھ بتائیں گے کہ ان نامور ادیبوں میں کتنے کٹھ ملے ہیں ؟یوگی آدتیہ ناتھ کے نفرت آمیز بیان پر اراکین اسمبلی نے اپنی سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔ رکن اسمبلی ضیالدین رضوی نے حکومت سے سوال کیا ہےکہ جب ہندی اور اردو دونوں سگی بہنوں کی طرح ہیں تو ایک کے ساتھ سوتیلا رو یہ کیوں ہے برتا جا رہا ہے؟ جبکہ اردو کو یوپی میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی آر کے ورما نے کہا کہ اردو اور سنسکرت ہندوستان کی زبانیں ہیں جبکہ انگریزی غیر ملکی زبان ہے جس کی ہمیشہ سے سماجوادی پارٹی نے مخالفت کی ہے۔ اانہوں نے کہا کہ1986ء میں تو مختلف پارٹیوں کے ارکان اسمبلی کی مخالفت کی وجہ سے انگریزی پوری طرح سے اسمبلی سے باہر کر دی گئی تھی مگر اب بی جے پی حکومت ملکی زبانوں کی جگہ پر انگریزی اور انگریزیت کو بڑھاوا دینا چاہتی ہے۔
واضح رہے کہ1989 میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا تھا ۔اس قانون کے مطابق سرکاری احکامات ، اشتہار ات، درخواستیں اور سرکاری نیم پلیٹ ہندی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی جاری کئے جاتے تھے ۔لیکن یوگی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد ان پر عمل در آمد بہت کم ہو گیا ہے ۔اردو کے خلاف اسمبلی میں دئے گئے یوگی کے بیان کے بعد اردو کی سرکاری حیثیت پر کئی سوال کھڑے ہو گئے ہیں جن کا جواب یوگی حکومت کی طرف سے دیا جانا چاہئے۔