یو پی :مذہبی ہم آہنگی کی عظیم مثال ، سماجی کارکن مسلم خاتون  نے کرائی غریب ہندو خاندان کی بیٹی کی شادی

نئی دہلی ،15جون:۔

ایک طرف جہاں ملک میں ہندو مسلم نفرت اور تشدد کا بازار گرم ہے ،لو جہاد اور تبدیلی مذہب کے نام پر ملک میں مسلمانوں کے لئے زمین تنگ کی جا رہی ہے وہیں دوسری طرف آج بھی کچھ لوگ ان نفرت بھرے ماحول سے دور انسانیت کی مثال پیش کر رہے ہیں،مذہب اور ذات پات کی دیوار توڑ کر سماج میں مذہبی ہم آہنگی کی مثال قائم کر رہے ہیں ۔اتر پردیش کے بریلی سے ایسی ہی مذہب ہم آہنگی اور آپسی محبت کی مثال سامنے آئی ہے جہاں ایک مسلم خاتون نے پسماندہ غریب ہندو خاندان کی بیٹی  کی شادی اپنے خرچ پر مکمل کرائی ہے ۔یہ مثال علاقے میں لوگوں کے لئے فخر کا موضوع بنا ہوا ہے اور لوگ  تعریف بھی کر رہے ہیں۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق  یہ انوکھا واقعہ اتر پردیش کے بریلی کا ہے  جہاں ایک غریب ہندو گھرانے کی بیٹی تانیا کی شادی  ایک مسلم سماجی کارکن سمیون خان نے کرائی ہے  ۔ سمیون نے نہ صرف اس خاندان کی مالی مدد کی بلکہ معاشرے کو انسانیت کا پیغام دے کر دوسروں کے لیے بھی ایک مثال  قائم کی ہے ۔

دراصل بریلی کے سبھاش نگر کی پال کالونی میں رہنے والے سنتوش ساگر کی بیٹی تانیا کی اتوار کو شادی ہونے والی تھی۔ سنتوش موچی کا کام کرتے ہیں ۔ ان کے خاندان کو مالی بحران کا سامنا تھا۔ بیٹی کی شادی کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی۔ ایسے میں تانیا کے والد نے سمیون سے مدد کی درخواست کی۔

یاد رہے کہ غریب خاندان کی بیٹی تانیا کی شادی لکھیم پور کے پریم ساگر کے ساتھ طے ہوئی تھی۔ بیٹی کی شادی کے لیے باپ کو پیسوں کی ضرورت تھی۔ پھر اس غریب خاندان کو سمیون یاد آئیں۔در اصل سمیون خان نے  کورونا کی وبا کے دوران ان کی مدد کی تھی۔ تو تانیا کے والد نے سمیون خان کے سامنے مدد کی اپیل کی ۔ ایسے میں سمیون نے تانیا کی شادی کے تمام اخراجات برداشت کرنے کا فیصلہ کیا۔سمیون خان نے اپنی ٹیم کی مدد سے تانیا کی شادی کی تیاریاں شروع کر دیں اور ہندو رواج کے مطابق تانیا کی شادی مکمل ہوئی ، تانیا کے والد سنتوش نے سمیون  خان سے شادی کے دن بیٹی کاکنیا دان بھی کرایا ۔ اہل علاقہ نے سمیون خان کے اس قدم کو سراہا اور دلہا دلہن کو مبارکباد بھی دی۔ ایک مسلم خاتون نے یہ  شادی ایک  ایسے وقت میں  کرائی ہے جب لوگ مسلمانوں کو غلط نظروں سے دیکھ رہے  ہیں۔

واضح رہے کہ سمیون خان گزشتہ کئی سالوں سے  سماجی خدمت میں مصروف ہیں۔ وہ خواتین کے حقوق کے لیے مسلسل کام کر رہی ہیں۔ کووڈ کی وبا میں ان کی آئی ایم اے ٹیم نے لوگوں کی مدد کی تھی۔اس دوران ان کی ٹیم نے   سڑک کے کنارے واقع لاوارث  پڑے غریبوں اور بے سہارا مریضوں کو  ضلع اسپتال لے جانے اور ان کا علاج کرانے  کا کام کیا تھا۔