یو پی :ایک اور مسلم نوجوان ہجومی تشدد کا شکار ، بھیڑنے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا
کوشامبی میں 32 سالہ نوجوان محمد ارشد عرف سیفی کا بہیمانہ قتل،اکثریتی فرقے سے تعلق رکھنے والے چھ افراد کو پولیس نے گرفتار کیا ،مہگاؤں میں کشیدگی ،پولیس فورس تعنیات

نئی دہلی ،19 مارچ (دعوت ویب ڈیسک)
ملک میں مسلمانوں کے خلاف ہجومی تشدد کا سلسلہ تھم نہیں رہا ہے،آئے دن کہیں نہ کہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تازہ معاملہ اتر پردیش کے کو شامبی ضلع کے مہگاؤں میں پیش آیا ہے۔ جہاں شدت پسندوں کی بھیڑ نے ایک مسلم نوجوان کو لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ پولیس نے اس معاملے میں اکثریتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے پردیپ کشواہا سمیت سات لوگو ں کو گرفتار کیا ہے۔جبکہ دس نا معلوم افراد فرار ہیں ۔محمد ارشد کے قتل کے بعد مہگاؤں میں کشیدگی پھیل گئی ہے ۔ علاقے میں بڑی تعداد میں پولیس فورس تعنیات کر دی گئی ہے ۔
رپورٹ کے مطابق گذشتہ 17؍ مارچ کو ضلع کوشامبی کے مہگاؤں میں 32؍ سالہ نوجوان محمد ارشد عرف سیفی کو علاقے کے دبنگ لوگوں پردیپ کشواہا اور اس کے ساتھیوں نے دھار دار ہتھایاروں اور لاٹھی ڈنڈوں سے حملہ کر دیا۔ حملے میں سیفی کی موت ہو گئی ۔ سیفی کی موت کے بعد علاقے میں کشیدگی پھیل گئی ہے ۔ سیفی پر حملہ کرنے والے موقع سے فرار ہو گئے ۔ کشیدگی پر قابو پانے کے لیے فتح پور اور پرتاپ گڑھ سے بھی پولیس فورس طلب کی گئی ہے۔ بعد میں مقتول کی والدہ کی تحریری شکایت پر پولیس نے سات حملہ آوروں کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔یہ واقعہ پیر کی صبح اس وقت پیش آیا جب سیفی کھیت کی طرف سے گھر واپس جا رہا تھا۔ حملہ آوروں نے گھیر کر لاٹھی ڈنڈوں سے اس پر حملہ کیا اور موقع سے فرار ہو گئے۔ دن دہاڑے ہوئی اس واردات کے بعد علاقے میں سنسنی پھیل گئی۔ معاملہ دو فرقوں سے جڑا ہونے کی وجہ سے ضلع پولیس کے علاوہ فتح پور اور پرتاپ گڑھ سے اضافی فورس طلب کر لی گئی ہے۔ فی الحال پولیس اس معاملے کو آپسی رنجش قرار دے اس پورے معاملے کو دبانے میں لگی ہوئی ہے ۔
پولیس کے مطا بق مہگاؤں کے رہائشی بَنّے کا بیٹا سیفی عرف محمد ارشد ایک ہسٹری شیٹر تھا جس کے خلاف کوشامبی اور فتح پور میں گینگسٹر سمیت آٹھ مقدمات درج تھے۔ وہ گاؤں کے مچھلی پالنے والے انیل ریداس کے ساتھ کام کرتا تھا۔ چار دن پہلے جب انیل ریداس سرکاری ہینڈ پمپ میں موٹر ڈال کر اپنے مچھلی کے تالاب میں پانی بھرنا چاہتا تھا تو گاؤں کے ہی شنکر کشواہا اور ان کے بیٹوں سے اس کا جھگڑا ہو گیا۔ اس وقت سیفی نے انیل کا ساتھ دیا تھا، جس کے بعد دشمنی بڑھ گئی۔پولیس کا کہنا ہے کہ اسی رنجش کے چلتے محمد ارشد کا قتل ہوا ہے۔لیکن حملہ آواروں نے صرف محمد ارشد کو ہی نشانہ کیوں بنایا ؟ اس جواب پولیس کے پاس نہیں ہے۔
جائے واردات پر تحقیقاتی ٹیم
سیفی کے قتل کے بعد مہگاؤں کے مسلمانوں میں خوف ہراس پیدا ہو گیا ہے۔قتل کی اطلاع ملتے ہی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (اے ڈی جی) پریاگ راج بھانو بھاسکر، ضلع مجسٹریٹ مدھو سودن ہلگی، پولیس سپرنٹنڈنٹ برجیش کمار سریواستو، ایس پی راجیش کمار سمیت بڑی تعداد میں پولیس اہلکار موقع پر پہنچے۔ مقتول کی والدہ افروز جہاں کی تحریر پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے سات ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔جبکہ دس نا معلوم حملہ آور فرار ہیں۔اس واقعے کے بعد سے علاقے میں بدستور کشیدگی بنی ہوئی ہے۔ پولیس نے قتل میں شامل حملہ آورکے گھر کی سکیورٹی کے لیے فورس تعنیات کر دی ہے ۔ پوسٹ مارٹم کے بعد بھاری فورس کی موجودگی میں مقتول محمد ارشد کی تدفین کر دی گئی۔ معاملہ دو فرقوں سے جڑا ہونے کی وجہ سے علاقے میں حالات کشیدہ ہیں۔تناؤ کے دیکھتے ہوئے پولیس اور پی اے سی کے جوانوں نے مہگاؤں علاقے میں مارچ کیا۔ پولیس باقی ملزمان کی گرفتاری کے لیے ممکنہ مقامات پر چھاپے مار رہی ہے۔