یوپی میں 350 سے زیادہ مدارس، مساجد، مزارات اور عیدگاہوں  پر کارروائی

سرکاری زمین پر غیر قانونی  تعمیرات کا حوالہ دے کر انہدامی کارروائی،لوگوں نے اٹھائے سوال،کیا صرف مدارس اور مساجد ہی غیرقانونی ہیں؟

دعوت ویب ڈیسک

نئی دہلی ،13 مئی :۔

جس وقت ہندوستانی فوج پاکستان کے ساتھ جنگ میں مصروف تھی اور پورا ملک بلا تفریق مذہب و ملت فوج کی حوصلہ افزائی میں سر گرم  تھے اور یکجہتی کا اظہار کر رہے تھے عین اسی وقت اتر پردیش کی یوگی حکومت مدرسوں اور مزارات کے خلاف سر گرم تھی ۔ یوگی حکومت چن چن کر مدارس اور درگاہوں کی قانونی حیثیت کی جانچ کر رہی تھی اور ان کے خلاف انہدامی کارروائی کی جا رہی تھی ۔خاص طور پر اتر پردیش کے نیپال کی سرحد سے متصل اضلاع میں کم از کم 350 سے زائد مدارس کے خلاف کارروائی کی گئی ۔یاتو انہیں منہد کر دیا گیا یا سیل کر دیا گیا ۔

رپورٹ کے مطابق   حکومت نے بھارت نیپال کی سرحد سے متصل اضلاع میں 350 سے زائد مدارس، مساجد اور عیدگاہوں کو سیل کر دیا ہے۔ حکومت نے پیلی بھیت، شراوستی، بلرام پور، بہرائچ، سدھارتھ نگر اور مہاراج گنج میں مبینہ طور پر غیر قانونی مذہبی مقامات کے خلاف سخت کارروائی کی ہے۔ جب ملک پاکستان پر حملہ کر رہا تھا تو ان دو دنوں میں اتر پردیش کے کئی مدارس کو سیل کر دیا گیا اور بہت سے مقبرے گرائے گئے۔

ان مدارس کو اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی طرف سے شروع کی گئی مہم کے تحت سیل کیا گیا ہے۔ مہم میں، وزیراعلیٰ نے تمام انتظامیہ کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ سرکاری اراضی پر بنائے گئے اور بغیر رجسٹریشن کے بنائے گئے مدارس اور مساجد کے خلاف سخت کارروائی کریں، جس کے تحت انتظامیہ نے ہندوستان-نیپاس سرحد کے ساتھ والے علاقوں میں 350 سے زائد اسلامی اداروں  کو سیل کر دیا ہے۔

مہم کے تحت 10 اور 11 مئی کو شراوستی میں سرکاری اور نجی زمین پر غیر قانونی طور پر بنائے گئے 104 مدارس، ایک مسجد، پانچ درگاہوں اور دو عیدگاہوں کی نشاندہی کی گئی۔ نوٹس جاری کر کے تمام علاقوں کو سیل کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بہرائچ میں بھی 10 اور 11 مئی کو 13 مدارس، 18 مساجد، دو درگاہیں اور ایک عیدگاہ کی نشاندہی کی گئی  جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ  سرکاری زمین پر غیر قانونی طور پر بنائے گئے تھے۔ ان تمام کو نوٹس جاری کیے گئے جن میں سے 5 کو سیل کر دیا گیا جبکہ 11 کو منہدم کر دیا گیا۔ جن مقامات پر بلڈوزر استعمال کیے گئے ہیں ان میں آٹھ مدارس، دو مساجد اور ایک عیدگاہ شامل ہیں۔

اس کے ساتھ ہی، سدھارتھ نگر میں کل 23 غیر قانونی تعمیرات کے خلاف سخت کارروائی کی گئی ہے، جس کے تحت ہفتہ کو 4 مساجد اور 18 مدارس غیر قانونی پائے گئے۔ جبکہ اتوار کو ایک اور مدرسہ کو نشان زد کیا گیا۔ مہاراج گنج میں اب تک 29 مدارس اور کئی اسلامی مقامات کو تباہ کیا جا چکا ہے جن کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ سرکاری اور نجی زمین پر بنائے گئے تھے۔

دریں اثنا ہفتہ اور اتوار کو تھیم پور میں 13 غیر قانونی تعمیراتی مقامات کو نوٹس جاری کیے گئے جن میں سے نو کو سیل کر دیا گیا اور تین کو منہدم کر دیا گیا۔ دو مساجد، ایک درگاہ اور عیدگاہ اور آٹھ مدارس سرکاری اور نجی زمین پر بنائے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں رجسٹریشن کے بغیر بنائی گئی مساجد کو یلو پیجز میں نوٹس جاری کرتے ہوئے 15 دن میں جواب دینے کو کہا گیا ہے۔ اسی طرح بلرام پور میں بھی اب تک 30 مقبرے، 10 اسلامی مقامات اور ایک عیدگاہ کو منہدم کیا جا چکا ہے۔

دوسری جانب لوگوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا غیر قانونی طور پر صرف مدارس ہی چل رہے ہیں یا سرکاری زمین پر صرف قبرستان اور درگاہیں ہی ہیں مندروں اور گروکل نہیں چل رہے ہیں ۔لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ صرف مسلمانوں کو ہدف بنا کر کارروائی کی جا رہی ہے اور قانونی نوٹس جاری کئے جا رہے ہیں ۔اگر مندروں اور شمشان کی جانچ کی جائے تو وہ بھی سرکاری اور نجی زمینوں پر ہی قائم ہیں ،متعدد پرائیویٹ اسکول ہیں جو بغیر رجسٹریشن کے چل رہے ہیں لیکن حکومت مسلمانوں کو ہدف بنا کر کارروائی کر رہی ہے اور جانچ صرف مسجدوں ،درگاہوں اور مزارات و مدارس تک ہی محدود ہے ۔یہ یوگی حکومت کے مذہبی تعصب کی عکاسی کرتا ہے ۔