یوپی مدرسہ ایکٹ: ہائی کورٹ کے فیصلے پرسپریم کورٹ میں اگلے ہفتے حتمی سماعت
نئی دہلی، 5 اگست:۔
سپریم کورٹ میں یوپی کے مدرسہ ایکٹ کو غیر آئینی قرار دینے والے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست پر اگلے ہفتے حتمی سماعت ہوگی ۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی صدارت والی بنچ نے یہ حکم دیا۔سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم پر 5 اپریل کو روک لگا دی تھی۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ہائی کورٹ کے اس حکم سے 17 لاکھ طلبا کا مستقبل متاثر ہوگا۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اس کیس پر غور کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے قانون کی غلط تشریح کی۔الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ کے فیصلے پر سوال اٹھاتے ہوئے ایک مدرسے کے منیجر انجم قادری اور دیگر کی طرف سے دائر درخواست میں اسے من مانی قرار دیا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس فیصلے سے مدارس میں پڑھنے والے لاکھوں بچوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ اس لیے جب تک سپریم کورٹ مدرسہ ایکٹ کے آئینی جواز پر کوئی فیصلہ نہیں لے لیتی، ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی جائے۔
دراصل 22 مارچ کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ نے ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو غیر آئینی اور سیکولرازم کے اصول کے خلاف قرار دیا تھا۔ یہ قانون اس وقت منظور ہوا جب ملائم سنگھ یادو وزیر اعلیٰ تھے۔ ریاست میں بڑی تعداد میں مدارس اور ان میں پڑھنے والے طلبہ کی تعداد کو دیکھتے ہوئے ہائی کورٹ نے یوپی حکومت سے کہا تھا کہ وہ مدارس میں پڑھنے والے بچوں کو رسمی تعلیم فراہم کرنے والے دوسرے اسکولوں میں داخل کرے۔ اس کے لیے اگر ضرورت ہو تو نئے اسکول کھولے جائیں۔اتر پردیش حکومت نے اکتوبر 2023 میں مدارس کی غیر ملکی فنڈنگ کی تحقیقات کے لیے ایس آئی ٹی تشکیل دی تھی۔ ایس آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں 8 ہزار مدارس کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی۔