یوپی : مدارس کو نوٹس کیخلاف مسلم پرسنل لا بورڈ کے وفد کی وزیر اعلیٰ سے ملاقات

یو پی کے8449 مدارس کو جاری نوٹس پر سخت اعتراض،اقلیتوں کو حاصل آئینی حقوق کی خلاف ورزی  قرار دیتے ہوئے میمو رینڈم سونپا

نئی دہلی ،30 جولائی:۔

اتر پردیش کی یوگی حکومت یوپی کے مدارس کے خلاف اول دن سے سر گرم ہے اور  مدارس کے خلاف  ایک ہدف کے طور پر کام کر رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ  ماضی قریب میں یوگی حکومت نے ایسے اقدامات کئے ہیں جس سے دینی مدارس کے ذمہ داران کے ساتھ ساتھ تمام مسلمانوں میں بے چینی پائی جا رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں یوپی حکومت نے 8449 مدارس کو بند کرنے کا نوٹس جاری کیا ہے اور اس پر کچھ جگہوں پر عمل در آمد بھی شروع ہو چکا ہے۔یوپی حکومت کی مدارس کے خلاف اس کارروائی پر جہاں ملی تنظیموں نے اعتراض کیا ہے وہیں مسلم پرسنل لا بورڈ نے ایک قدم بڑھاتے ہوئے وزیر اعلیٰ یوگی سے ملاقات کر کے اپنا موقف واضح کیا ہے۔

پرسنل لا بورڈ  لکھنؤ کی جانب سے جاری ایک ریلیز کے مطابق  آج آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ک ایک وفد  نے بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی کی قیادت میں یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی ۔ بورڈ کے وفد نے اس ملاقات میں چیف سکرٹری اتر پردیش کی جانب سے یو پی کے8449 مدرسوں کو جاری نوٹس پر اپنا اعتراض درج کرایا۔اس نوٹس کی بنیاد پر ضلعی انتظامیہ ہر ضلع میں موجود مدارس کو انتباہ دے رہی ہیں کہ وہ مدارس میں موجود بچوں کو بیسیک تعلیم کے لئے اسکولوں میں داخل کروائیں ۔ اس سلسلے میں سدھارتھ نگر ،کشی نگر اور سنت کبیر نگر میں مدارس کے خلاف ضلعی انتظامیہ نے کارروائی بھی شروع کر دی ہے۔

بورڈ کے وفد نے وزیر اعلیٰ سے کہا کہ ان مدارس کو غیر منظور شدہ اس بنیاد پر کہا جا رہا ہ کہ وہ مدرسہ بورڈ سے ملحق نہیں ہیں ، حالانکہ یہ مدارس کسی نہ کسی ٹرسٹ یا سو سائٹی کے تحت برسوں سے قائم ہیں اور ان مدراس میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ وفد نے واضح کیا کہ چیف سکریٹری کی طرف سے جاری یہ حکم نامہ ملک کے آئین کی دفعات14،21،26،28،29اور 30 سے بھی متصادم ہیں۔ملک کے آئین نے اقلیتوں کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کر سکتے ہیں بلکہ اس کا انتظام و انصراف بھی اپنی مرضی کے مطابق کر سکتے ہیں ۔ اسی طرح رائٹ ٹو ایجو کیشن ایکٹ 2009 نے بھی مدارس اور پاٹھ شالاؤں کو ایکٹ سے مستثنیٰ کر رکھا ہے۔ بورڈ کے وفد نے وزیر اعلیٰ کو بتایا کہ نہ صرف یہ مدارس معیاری تعلیم فراہم کرتے ہیں بکہ لاکھوں بچوں کی رہائش اور کھانے پینے کا بھی معیاری اور مفت انتظام کرتے ہیں۔

بورڈ نے اس موقع پر راشٹریہ بال ودھیکار سنرکشن آیوگ کی جانب سے یو پی کے چیف سکریٹری کو جاری خط پر بھی اعتراض جتایا۔جس کے تحت مدارس کے تمام بچوں کو اسکول میں داخل کروانے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔ چنانچہ اس حکم کی بنیاد پر انتظامیہ نے 8449 مدارس کی ایک فہرست جاری کی ہے جس میں دارالعلوم دیوبند ،دالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ، جامعہ سلفیہ بنارس،جامعہ اشرفیہ مبارکپور،جامعۃ الفلاح اور مدرسۃ الاصلاح جیسے بڑ اور بین الاقوامی نوعیت کے مدارس بھی شامل ہیں ۔

بورڈ نے وزیر اعلیٰ سے اس موقع پر مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اس حکم نامہ کو واپس لینے کے احکامات جاری کریں تاکہ ریاست کے مسلمانوں میں جو بیچی پیدا ہو گئی ہے اس کا مداوا ہو سکے۔بورڈ کے جنرل سکریٹری نے اخیر میں ایک تحریری میمو رینڈم بھی وزیر اعلیٰ کو پیش کیا۔ وزیر اعلیٰ نے وفد کو یقین دلایا کہ وہ اس پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔ بورڈ کے وفد میں جنرل سکریٹری کے علاوہ مجلس عاملہ کے ممبران مولانا خالد رشید فرنگی محلی،مولانا عتیق احمد بستوی۔ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس اور ایڈو کیٹ سعود رئیس شامل تھے۔