یوپی: محلے میں  مسلم خاتون کے مکان خریدنے کے خلاف ہندوؤں کا احتجاج، اجتماعی طور پر نقل مکانی کی دھمکی

گجرات کے بعد اب اتر پردیش میں بھی ہندواکثریت محلے میں مسلمان کے گھر خریدنے پر اعتراض

نئی دہلی،21 اگست :۔

مسلمانوں کے خلاف ملک میں نفرت کی جڑیں اتنی گہری ہو گئی ہیں جس کا اندازہ لگانا مشکل ہو گیاہے۔کھانے پینے ،کاروبار کرنے سے لے کر اب رہائش اختیار کرنے پر بھی شدت پسند ہندوؤں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا ہے۔گجرات میں ایک ہندو اکثریت سوسائٹی میں ایک مسلمان کے مکان لینے پر ہنگامہ کیا گیا تھا اب اسی طرح اتر پردیش کے بریلی میں بھی ایک واقعہ رونما ہوا ہے جہاں ہندو باشندوں کو اپنے پڑوس میں کسی مسلمان کی رہائش کھٹک رہی ہے ۔اس کے خلاف باقاعدہ احتجاج کیا  گیا اور رجسٹریشن منسوخ کرنے کی دھمکی دی  گئی  ۔

دی وائر کی رپورٹ کے مطابق  اتر پردیش کے بریلی میں ایک ہندو اکثریتی علاقے پنجاب پورہ ، جو مقامی طور پر وکیل والی گلی کے نام سے جانا جاتا ہے،کے رہائشیوں نے اس علاقے میں ایک مسلم خاتون کے گھر خریدنے کے خلاف  پیر (19 اگست) کو احتجاج کیا۔ احتجاج اس وقت شروع ہوا جب علاقے کے سابق رہائشی وشال  سکسینہ نے اپنا گھر شبنم نامی ایک مسلم خاتون کے ہاتھوں فروخت کر دیا، جو اب وہیں رہ رہی ہیں۔

اس علاقے میں شہر کے کئی وکیلوں کے گھر ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ مسلم خاتون کی جائیداد کی رجسٹریشن منسوخ کی جائے۔ پنجاب پورہ کے کچھ ہندو باشندوں نے دھمکی دی کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ اجتماعی طور پر نقل مکانی کریں گے۔انہوں نے احتجاج کے دوران اجتماعی نقل مکانی کا پوسٹر بھی اٹھا رکھا تھا۔ مزید برآں، مقامی لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازوں پر ‘ساموہک پلاین (اجتماعی طور پرنقل مکانی)’ کا اعلان کرتے ہوئے پوسٹر بھی لگائے ہیں۔بریلی کی بار ایسوسی ایشن کے سابق سکریٹری اروند سریواستو نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مکان کی خریداری کے سودے میں ایک آسامی مولانا شامل ہیں، جو ایک مقامی مسجد پر ناجائز قبضے میں بھی ملوث ہیں۔انہوں نے کہا، ‘ہمارے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ بنگلہ دیشی اور آسامی لوگ آگے نہیں آئیں گے۔’  سریواستو نے پوچھا، ‘اس سے جو ‘لو جہاد’ پیدا ہوگا، اس کے لیے  کون ذمہ دار کون ہوگا؟’ پنجاب پورہ کی کچھ خواتین نے کہا کہ اگر ‘مسلمان’ ان کے علاقے میں آئیں گے تو ان کے لیے باہر بیٹھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ ایک اور خاتون نے کہا، ‘وہ (مسلمان) گوشت کھاتے ہیں، جبکہ ہم اپنی  زندگی میں ساتوکت (تقدس )کی سختی سے پیروی کرتے ہیں۔’ایک خاتون نے کہا، ‘ہم بچپن سے یہاں رہ رہے ہیں اور اگر وہ (مسلمان) یہاں آنا شروع ہو گئے تو ہمارے بچوں کا مستقبل خراب ہو جائے گا۔

دریں اثنا، شبنم کے بھائی محمد نسیم بشیری، جو ایک قریبی درگاہ پر پھول فروخت کرتے ہیں، نے مقامی میڈیا کے سامنے احتجاج کرنے والے لوگوں کے تئیں اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا، ‘اگر وہ ہمیں پہلے بتا دیتے تو ہم یہ گھر ان کو خریدنے کے لیے چھوڑ دیتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس گھر کو خریدنے کے پیچھے ہمارا کوئی غلط ارادہ نہیں تھا اور ہم اس کا حل چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقامی قلعہ پولیس اسٹیشن کے انسپکٹر کے بلائے جانے پر بھی انہوں نے یہی بات کہی تھی۔کچھ مقامی لوگوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس علاقے میں پڑھے لکھے شہری رہتے ہیں اور وہ یہاں پر ایک پھول بیچنے والے  کا رہنا پسند نہیں کرتے۔

دی وائر کے مطابق  نسیم بشیری نے کہا کہ گھر بیچنے والے سکسینہ منگل (20 اگست) کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے دفتر لے گئےاور انہوں نے کہا کہ وہ جس کو بھی یہ گھر چاہیے ، اسے بیچنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر علاقے کا کوئی گھر خریدنا چاہتا ہے تو وہ موجودہ خریدار یعنی مسلمان خاتون کو اس کی ادائیگی واپس کر دیں  گے۔