یوپی حکومت نے سپریم کورٹ میں شاہی جامع مسجد پر سرکاری زمین پر قبضہ کرنے کا الزام عائد کیا

نئی دہلی ،24 فروری :۔
اتر پردیش حکومت نے سنبھل میں واقع شاہی جامع مسجد کے انتظامیہ پر سرکاری زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کا الزام عائد کیا ہے۔ سپریم کورٹ میں داخل کی گئی ایک اسٹیٹس رپورٹ میں یوپی حکومت نے دعویٰ کیا کہ مسجد کمیٹی نے 16ویں صدی کی مسجد کے قریب ایک کنویں کے بارے میں عدالت میں گمراہ کن تصاویر پیش کیں۔
خیال رہے کہ سنبھل کی شاہی جامع مسجد کو ہندو فریق کی جانب سے ہری ہر مند کا دعویٰ کرتے ہوئے سروے کی عرضی دی تھی جس کے بعد سول کورٹ کی جانب سے مسجد کا سروے کیا گیا جس کے بعد تشدد پھوٹ پڑا تھا۔
حکومت نے داخل کی گئی اسٹیٹس رپورٹ میں دعویٰ کیاکہ مسجد اور کنواں دونوں ہی سرکاری زمین پر ہیں، حکومت نے زور دیا کہ مسجد کے حکام ان پر نجی حقوق قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حکومت نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ کنواں ایک عوامی کنواں ہے اور یہ مسجد (یا) متنازعہ مذہبی مقام کے اندر کہیں بھی واقع نہیں ہے… مسجد کے اندر سے کنویں تک رسائی نہیں ہے… (اس کا) متنازعہ مقام سے کوئی تعلق نہیں ہے،” حکومت نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ یہ کنواں تاریخی طور پر تمام کمیونٹیز کے ذریعے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
خیال رہے کہ اس سلسلے میں مسجد کمیٹی نے پہلے گوگل میپس کی ایک تصویر پیش کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ کنواں مسجد کے احاطے میں ہے۔ تاہم، حکومت نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے اسے "غلط تصور” قرار دیا اور کہا کہ یہ کنواں بارش کے پانی کے ذخیرہ کرنے اور ثقافتی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے سنبھل میں 19 کنوؤں کو بحال کرنے کی ایک وسیع کوشش کا حصہ ہے۔
واضح رہے کہ پچھلے مہینے، سپریم کورٹ نے اس معاملے پر جمود کا حکم دیتے ہوئے مقامی انتظامیہ کے نوٹس پر روک لگا دی جس میں کنویں پر پوجاکی اجازت دی گئی تھی۔ عدالت نے کنویں کے عوامی استعمال کی اجازت دیتے ہوئے کسی بھی مذہبی رسومات پر پابندی لگا دی ہے۔
دریں اثنا مسجد کمیٹی نے رمضان سے قبل مسجد تزئین کی اجازت دینے کی بھی درخواست کی ہے۔ تاہم، ضلع مجسٹریٹ راجندر پنسیا نے کہا ہے کہ ایسا کوئی کام آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کی پیشگی منظوری کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔
واضح رہے کہ شاہی جامع مسجد پر تنازع گزشتہ سال تشدد کے بعد شدت اختیار کر گیا، جب ایک مقامی عدالت نے اس دعوے پر مبنی سروے کا حکم دیا کہ مسجد کے مقام پر پہلے ہندو مندر تھا۔ اس حکم کے بعد مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جس کے نتیجے میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں۔