یوٹیوب چینل پر پابندی آزادی اظہار پر براہ راست حملہ
پریس کلب آف انڈیا فور پی ایم نیوزیوٹیوب چینل کو بلاک کرنے پر حکومت کی مذمت کی

نئی دہلی ،یکم مئی :۔
پہلگا م میں ہوئے دہشت گرد حملے کے بعد وہاں موجود سیاحوں کیلئے سیکورٹی انتظامات نہ ہونے پر سوال کھڑے کئے جا رہے ہیں اور حقیقی معنوں میں سوال ہونا بھی چاہئے مگر موجودہ حکومت نے اپنی روش کے مطابق سوال پوچھنے یا خامیوں کو اجاگر کرنے کو ملک مخالف سر گرمیوں سے تعبیر کرنا شروع کر دیا ہے اور اس سلسلے میں سخت اقدامات بھی کئے گئے ہیں ۔یو ٹیوب چینل فور پی ایم کی نشریات پر پابندی حکومت کے اسی اقدام کے تحت اٹھایا گیا قدم ہے جس کی ہر طرف مذمت کی جا رہی ہے۔ پریس کلب آف انڈیا نے گزشتہ روز منگل کوفور پی ایم نیوز کے یوٹیوب چینل کو بلاک کرنے کے مرکزی حکومت کے فیصلے کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے پریس کی آزادی پر براہ راست حملہ قرار دیا۔
نیوز آؤٹ لیٹ، جس کے 7.3 ملین سبسکرائبرز تھے، کو 29 اپریل کو بلاک کر دیا گیا ۔ جب صارفین چینل تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو یوٹیوب اب ایک پیغام دکھاتا ہے کہ یہ "اس ملک میں قومی سلامتی یا امن عامہ سے متعلق حکومت کے حکم کی وجہ سے دستیاب نہیں ہے۔ ایک بیان میں، صحافیوں کی تنظیم نے کہا، "سوال پوچھنے پر یوٹیوب چینل کو بند کرنا آزادی اظہار پر براہ راست حملہ ہے، جو ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 19(1)(a) میں درج ہے۔
پریس کلب نے جمہوریت میں اختلاف رائے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ شفافیت، احتساب اور جمہوری اقدار کو مضبوط بنانے کے لیے بہت ضروری ہے۔بیان میں مزید کہا گیا کہ "اس طرح کے اقدامات ایک خطرناک مثال قائم کرتے ہیں، اعتماد کو ختم کرتے ہیں، مجموعی طور پر گفتگو کو گھٹا دیتے ہیں۔ عوام جوابات کے مستحق ہیں، سنسر شپ کے نہیں۔
حکومت سے اپنا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے، پریس کلب نے حکام پر زور دیا کہ وہ بلاک شدہ چینل اور اس کے علاقائی زبان کے ورژن کو بحال کریں۔پریس کلب آف انڈیا نے کہا کہ ہم پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ مرکزی حکومت، شفافیت اور تحقیقات کے مفاد میں فور پی ایم نیوز اور اس کے کثیر لسانی چینلز کو بحال کرے۔
واضح رہے کہ پہلگام حملے کے بعد متعدد یو ٹیوبر نے سیکورٹی کے مسئلے پر سوال اٹھایا جس کے بعد مرکزی حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر کارروائی کی گئی ،بعض یوٹیوبر کے خلاف قومی سلامتی کے مقدمات درج کرنے کا انتباہ بھی جاری کیا گیا۔حکومت کے میڈیا کے خلاف اس طرح کے اقدامات کی صحافتی حلقوں میں تنقید کی گئی اور اسے جمہوریت میں سوال پوچھنے کی آزادی پر حملہ قرار دیا گیا۔