یونین بجٹ 2025 کیلئے جماعت اسلامی ہند کا مرکزی حکومت کو 16 نکاتی مشورہ

مرکز جماعت اسلامی ہند کے مرکزی دفتر میں ماہانہ پریس کانفرنس میں ذمہ داران نےسال 2025 کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مضبوط باہمی تعلقات کا سال بنانے کی اپیل

نئی دہلی،02 جنوری :۔

ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بے روز گاری کی شرح میں ریکارڈ اضافہ سے ملک کا ہر طبقہ پریشان ہے۔آئندہ ماہ مرکزی حکومت عام بجٹ پیش کرنے کی تیاری کر رہی ہے ۔دریں اثنا ملک کی معروف اور سر کردہ ملی و سماجی تنظیم جماعت اسلامی ہند نے بھی ملک کے اقتصادی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متعدد مطالبات کے ذریعہ مرکزی حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔

مرکز جماعت اسلامی ہند کے ہیڈ آفس دہلی میں منعقدہ آج پریس کانفرنس میں  امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے  بجٹ 2025 – 26 کے لیے 16 جامع تجاویز پیش کیں۔ انہوں نے کہا کہ  مرکزی بجٹ 2025-26 ایک ایسے وقت میں پیش کیاجا رہا ہے جب ملک شدید مالی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ ’سی ایم آئی ای‘ ( CMIE ) ڈیٹا کے مطابق نوجوانوں میں بے روزگاری کا اوسط 45.4 کی سطح تک پہنچ چکا ہے جبکہ تقریباً 20 فیصد آبادی غربت میں زندگی گزار رہی ہے اور زرعی ’جی ڈی پی‘ کی شرح نمو محض 2.8 رہ گئی ہے۔ لہذا جماعت اسلامی ہند عدم مساوات، بے روزگاری اور حاشیے پر پڑے ہوئے لوگوں کے مسائل کو دور کرنے اور انصاف، مساوی ترقی اور موثر حکمرانی کے لیے بجٹ کی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی کا مطالبہ کرتی ہے۔ ہماری رائے میں ہمیں سپلائی سائیڈ کی حکمت عملی، جو بنیادی طور پر کاروبار کی ترقی اور ٹیکس کی مراعات پرمرکوز نقطہ نظر کی وکالت کرتی ہے سے ڈیمانڈ سائڈ اسٹریٹجی جس کا مقصد شہریوں کی قوت خرید کو بڑھانا ، کھپت کو مضبوط کرنا اور فلاحی پروگراموں کو وسعت دینا ہوتا ہے کی طرف بڑھنا چاہیے۔” آپ نے مطالبہ کیا کہ "منریگا بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے ، شہری بے روزگاری کے لیے منریگا جیسے پروگرام شروع کیے جائیں اور قابل تجدید توانائی اور زرعی شعبے کو فروغ دینے کے یے دیہی روزگار کے مراکز قائم کیے جائیں۔ صحت عامہ پرجی ڈی پی کا 4 فیصد  اور ’’ مشن شکشا بھارت‘‘ کے لیے 6 فیصد مختص کیا جائے۔ اقلیتوں اور ایس ٹی / ایس سی برادریوں کو بااختیار بنانے کے لیے منقطع اسکالرشپس بحال کی جائیں، بڑے پیمانے پر اسکل ڈیولپمنٹ زون بنائےجائیں اور زمین اور کاروباری مواقع تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے مناسب پروگرام شروع کیےجائیں۔ اسی طرح زرعی شعبے میں سرکار کو قرض سے راحت، ایم ایس پی کی ضمانت، آبپاشی منصوبوں کو ترجیح دینی چاہئے، اس کے علاوہ کمزور طبقات کے لیے یونیورسل بیسک انکم ( یو بی آئی) کا مرحلہ وار آغاز ہونا چاہئے۔ محصولات کے اقدامات کو منصفانہ اور وسائل کی عادلانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔ ضروری اشیاء پر جی ایس ٹی کی حد 5 فیصد کی جائے ، 1000 کروڑ سے زائد دولت رکھنے والے افراد اور غیر ملکی ٹیک کمپنیوں پر ونڈ فال اور ڈیجیٹل ٹیکس لگائے جائیں اور مرکزی ٹیکسوں میں ریاستوں کا حصہ بڑھا کر 50 فیصد کیا جائے ، سی ایس آر کے اصولوں کو مضبوط کیا جائے نیز ٹیکس سے مستثنیٰ انفراسٹرکچر بانڈز متعارف کروائے جائیں” آپ نے اس یقین کا اظہار کیا کہ ان تجاویز پر عمل آوری سے ملک میں عدم مساوات، بے روزگاری، پسماندگی پر قابو پانے نیز سب کے لیے انصاف ، ترقی کو یقینی بنانے اور سرکار پر اعتماد کی بحالی میں مدد ملے گی۔‘‘

کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے نائب امیر جماعت پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ "جماعت اسلامی ہند عوام سے اپیل کرتی ہے کہ ہم سال 2025 کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی ، باہمی اعتماد اور افہام و تفہیم کا سال بنائیں۔ ہمارا ملک متنوع عقائد اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا ملک ہے ۔ کوئی بھی مذہب نفرت و عداوت کی تعلیم نہیں دیتا۔ کچھ مفاد پرست عناصر ہماری دیرینہ روایتوں کو زک پہنچانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ان عناصر کی فرقہ وارانہ سرگرمیوں نے ملک اور عوام کو اخلاقی، روحانی اور مادی طور پر شدید نقصان پہنچایا ہے ان پر قابو پانے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر مبنی معاشرے کی تعمیر کے لیے ہمیں انفرادی، خاندانی اور سماجی ہر سطح پر باہمی تعلقات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں متنوع نظریات و عقائد کے لوگوں کو مشترکہ بنیادوں پر متحد کرنے کی مثبت کوششیں کرنی چاہیے ۔ ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے جماعت اسلامی ہند بین مذاہب اتحاد اور امن کے لیے متعدد اقدامات کرتی رہی ہے۔ سماجی و مذہبی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے آئیں اور ملک میں امن و آشتی کے قیام میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہم اپنے ملک کے ہر شہری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہماری اس کوشش میں شامل ہوکر اس نئے سال کو  فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا سنگ میل بنانے میں ہمارے ساتھ دے۔

صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے نائب امیر جماعت ملک معتصم خاں نے سنبھل میں مسلمانو کو ہراساں کیے جانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو بے جا طور  ہراساں کرنے کے لیے سنبھل میں نئے نئے مسائل کھڑے کیے جارہےہیں۔ پچھلے چند دنوں میں ممبر پارلیمنٹ ضیاء الرحمن برق سمیت درجنوں مسلمانوں پر  بے بنیاد مقدمات درج کیے گئے ہیں ۔ سپریم کورٹ نے مذہبی مقامات کا سروے کرنے اور مبینہ تجاوزات کو بلڈوز کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے، اس کے بعد اقلیتوں کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کرنا، ریاستی سرکار کے منفی رویہ اور سوچ کو اجاگر کرتا ہے۔ جماعت اسلامی ہند، اترپردیش کی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ان منصوبہ بند منفی کارروائیوں کو فوری طور پر بند کرے ، قانون اور انصاف کی حکمرانی کو بحال رکھے اور سنبھل میں متاثرہ خاندانوں کے لیے انصاف کو یقینی بنائے ۔کانفرنس کی نظامت میڈیا ڈپارٹمنٹ کے انچارج محمد سلمان نے کی۔