یونیفارم سول کوڈسے قبائلی سماج بھی فکر مند ، آئینی حقوق کے سلب ہونے کا خدشہ
سرو آدیواسی سماج کے کنوینر اور سابق مرکزی وزیر اروند نیتام کا مرکزی حکومت کو انتباہ،جلد بازی میں مناسب مشاورت کے بغیر قبائلی برادریوں میں اسے نافذ کرنا ناممکن
نئی دہلی،05جولائی:۔
مرکز کی بی جے پی حکومت کے ذریعہ ملک میں یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی ) لانے کے اعلان کے ساتھ ہی پورے ملک میں بحث کا آغاز ہو چکا ہے ۔ابھی مسودہ سامنے نہیں آیا ہے لیکن لاء کمیشن کی جانب سے تمام طبقات سے اس سلسلے میں تجویز کے مطالبے کے ساتھ ہی اس کی حمایت اور مخالفت میں آوازیں اٹھنی شروع ہو گئی ہیں ۔ ایک طرف جہاں یو سی سی کی حمایت میں بی جے پی اور خود وزیر اعظم عوامی جلسوں سے تقریریں کر ہے ہیں اور ملک میں ایک قانون کی وکالت کر رہے ہیں وہیں اپوزیشن کی جانب سے اس کی مخالفت کی جا رہی ہے ۔اپوزیشن اور حکومت کی بحث کے علاوہ جہاں ایک طرف مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر یو سی سی کے نفاذ پر تشویش ہے وہیں ملک کا قبائلی طبقہ بھی فکر مند نظر آ رہا ہے ۔
قبائلی رہنماؤں اور نمائندوں نے اس سلسلے میں اپنی تشویش کا اظہار کرنا شروع کر دیاہے ۔چھتیس گڑھ کے معروف،سینئر قبائلی رہنما اورسرو آدی واسی سماج کے کنوینر سابق مرکزی وزیر اروند نیتام نے اس سلسلے میں تشویش کا اظہار کیا ہے ۔اروند نیتام نے مرکزی حکومت کو یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کے ذریعے جلدی کرنے کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مناسب مشاورت کے بغیر قبائلی برادریوں میں اسے نافذ کرنا ناممکن ہوگا۔
80 سالہ اروند نیتام چھتیس گڑھ سرو آدیواسی سماج کے صدر ہیں، جو ریاست میں 42 قبائلی گروپوں اور 70 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔منگل کو رائے پور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نیتام نے کہا: "تمام کمیونٹیز یو سی سی سے متاثر ہوں گی۔ ہندوستان اپنے تنوع کے لیے جانا جاتا ہے۔ حکومت ہند کو قبائلی علاقوں میں یو سی سی میں جلدبازی نہیں کرنی چاہیے۔ نیتام نے کہا کہ چھتیس گڑھ سرو آدیواسی سماج اس مسئلے پر صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کو ایک میمورنڈم بھیجے گا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ قبائلیوں کے پاس کوئی تحریری قانون نہیں ہے۔ ہمارے پاس روایتی قوانین ہیں جنہیں ہماری کمیونٹی میں اچھی طرح سے قبول کیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم تبدیلی نہیں چاہتے… وقت کے ساتھ ساتھ روایتی قوانین بھی بدل جاتے ہیں۔ لیکن ہم سب سے پہلے یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستانی حکومت قبائلی نظام کو سمجھے اور ان کے درمیان اعتماد پیدا کرے۔ مشاورت اور بات چیت کے بغیر یونیفارم سول کوڈ ناقابل عمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی برادریوں کے روایتی قوانین کو آئین کے آرٹیکل 13(3)(a) کے تحت قبول کیا جاتا ہے۔ نیتام نے کہا کہ قبائلیوں کو آئین کے پانچویں اور چھٹے شیڈول اور پنچایت (شیڈولڈ ایریاز میں توسیع) ایکٹ کے تحت زمین اور جائیداد کے خصوصی حقوق بھی حاصل ہیں۔یو سی سی کے نفاذ کے بعد ان کا کیا ہوگا۔
انہوں نے ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت کے اس فیصلے سے آدیواسی سماج فکرمند ہے ۔انہوں نے کہا کہ چونکہ میں قبائلی سماج و ثقافت سے وابستہ ہوں اور اس کے لئے وقف ہوں اس لئے میرا فکرمند ہونا لازمی ہے ،چونکہ ابھی یو سی سی پر مسودہ سامنے نہیں آیا ہے اس لئے زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ انہوں نے کہا کہ ابھی یو سی سی پر حکومت کی جلد بازی سے ہم ہرگز متفق نہیں ہیں ،حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ سروے کرائے اور قبائلی سماج کے تحفظات پر بھی غور کرے۔انہوں نے کہا کہ اگر بغیر کسی اسٹڈی کے یو سی سی کا نفاذ عمل میں آتا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ ہمارے آئینی حقوق سلب ہو جائیں گے۔پھر غریب ،پسماندہ اور محروم آدیواسی سماج کا کیا ہوگا۔
واضح رہے کہ یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کے سلسلے میں مرکز کی بی جے پی حکومت کو آدیواسی اور قبائلی سماج کی جانب سے شدید رد عمل اورناراضگی کا خدشہ ہے ۔گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کی قانون و انصاف سے متعلق اسٹینڈ کمیٹی کی میٹنگ میں بحث کے دوران اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئر مین سشیل مودی نےیو سی سی سے شمال مشرق اور قبائلی برادریوں کو استثنا رکھنے کی تجویز پیش کی تھی۔سشیل مودی نے شمال مشرقی اور دیگر قبائلی علاقوں کو یو سی سی کے دائرے سے باہر رکھنے کی تجویز میں کہا تھا کہ تمام قوانین میں استثنا موجود ہے ۔ ملک میں پہلے ہی بہت سے قوانین موجود ہیں ، جن میں انہیں کچھ رعایت ملی ہے ۔ بہت سے ایسے قوانین ہیں جو شمال مشرقی ریاستوں میں ان کی رضا مندی کے بغیر نافذ نہیں ہوتے ہیں ۔سشیل مودی کی اس تجویز سے آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ بی جے پی یو سی سی کے تعلق سے قبائلی سماج کے رد عمل سے کتنی خوف زدہ ہے اور بی جے پی حکومت کا مقصد صرف مسلمانوں کو نشانہ بنا کر اکثریت کو پولرائز کرنا ہے ۔