ہولی کے پیش نظر علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کا ماحول خراب کرنے کی کوشش

شدت پسند ہندو تنظیم کرنی سینانے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہولی کھیلنے کا اعلان کیا، وزیر اعظم مودی کے نام مکتوب روانہ،رکن پارلیمنٹ ستیش گوتم کی ہولی میں خلل ڈالنے والوں کو  دھمکی

نئی دہلی ،علی گڑھ،07 مارچ :۔

علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کا ماحول ایک بار پھر کشیدہ ہو گیا ہے۔ہولی کے پیش نظر شدت پسند ہندو تنظیمیں کیمپس کے اندر ہولی کھیلنے کیلئے بضد ہیں ۔جس کی وجہ سے انتظامیہ میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں ہندو طلبہ کو ہولی منانے کی اجازت نہیں دی ہے جس کی وجہ سے ہندو تنظیمیں چراغ پا ہیں ۔

رپورٹ کے مطابق انتظامیہ کے ذریعہ کیمپس میں ماحول کو پر امن بنائے رکھنے کیلئے ہولی کھیلنے کی اجازت نہ دینے کو لے کر شدت پسند ہندو تنظیم کرنی سینا نے احتجاج کیا۔ ۔ کرنی سینا کے کارکنوں نے کلکٹریٹ پر مظاہرہ کیا اور انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کی۔ اس دوران کرنی سینا کے نمائندوں نے وزیراعظم نریندر مودی کے نام ایک میمورنڈم سونپا، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ ہندو طلبہ کو ان کے مذہبی حقوق دیے جائیں۔

دریں اثنا مقامی بی جے پی رکن پارلیمنٹ شتیش گوتم  نے بھی کیمپس میں ہندو طلبا سے جم کر ہولی کھیلنے کی اپیل کی ہے۔ اس دوران انہوں نے کہا کہ ہندو طلبا یونیور سٹی میں ہولی کھیلیں اگر کچھ ہوتا ہے تو ہم دیکھ لیں گے۔ اس دوران انہوں نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ اگر کوئی ہولی کھیلنے میں خلل ڈالتا ہے تو اسے اوپر پہنچا دیں گے۔ستیش گوتم کا یہ بیان اور ویڈیو وائرل ہو رہا ہے۔ جس کے بعد نہ صرف علی گڑھ کیمپس کا بلکہ پورے علی گڑھ کا ماحول کشیدہ ہو گیاہے۔

کرنی سینا کے صوبائی صدر گیانندر سنگھ چوہان نے کہا کہ اگر اے ایم یو انتظامیہ ہولی منانے کی اجازت نہیں دیتی، تو 10 مارچ کو ’رنگ بھرنی ایکادشی‘ کے موقع پر کرنی سینا کے کارکن خود یونیورسٹی میں جا کر ہندو طلبہ کے ساتھ ہولی کھیلیں گے اور ایک تقریب منعقد کریں گے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ہندو اور مسلم طلبہ کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟   ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم مودی نے اے ایم یو کو ’منی انڈیا‘ قرار دیا تھا لیکن وہاں ہولی کھیلنے کی اجازت نہ ملنا بدقسمتی کی بات ہے۔

انہوں نے  الزام عائد کیا کہ  اگر یونیورسٹی میں دیگر مذاہب کے تہوار منانے کی اجازت دی جاتی ہے تو ہولی کیوں نہیں منائی جا سکتی؟ ابھی تک اے ایم یو انتظامیہ کی طرف سے اس معاملے پر کوئی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا ہے، تاہم یہ تنازعہ طول پکڑتا جا رہا ہے ۔