ہولی کے دوران مساجد کی اہانت ، ایک نئی روایت کی شروعات

مسجدوں کو ترپالوں سے ڈھک کر مسلمانوں پر نفسیاتی دباؤ بنانے  کا تجربہ کیا گیا

مشتاق عامر

نئی دہلی ،15 مارچ :۔

اس بار ہولی میں لا اینڈ آرڈر کے نام پرپولیس کی طرف سے مسلمانوں پر جس کا طرح کا نفسیاتی دباؤ بنایا گیا اس کی مثال ماضی کی پولیس کارروائیوں میں نہیں ملتی ۔اس سال ہولی کی آڑ میں حکومت کی طرف سے مساجد پر ایک بڑا تجربہ کیا گیا جو بظاہر کامیاب نظر آتا ہے ۔وہ یہ کہ ہولی کے دن شہروں کی اہم مساجد کو پولیس انتظامیہ کی طرف سے پلاسٹک کے ترپالوں سے ڈھک دیا گیا ۔پولیس کی طرف سے دلیل یہ دی گئی کہ اس سے  مسجدوں پر رنگ نہیں پڑے گا ۔ یہ حکومت کی طرف سے مسجدوں پر کئے جانے والا بالکل نئے طرح کا تجربہ تھا ۔ اس تجربے کے مضمرات اور اس کے پیچھے کی مذموم منشا کو سمجھنا بہت ضروری ہے ۔اس پہلے بھی متعدد بار جمعہ کے دن ہولی کا تہوار پڑ چکا ہے ۔لیکن ملک کے کسی بھی ریاست یا شہر میں مسجدوں کو اس طرح سے ڈھکے جانے کی کوشش نہیں کی گئی ۔

اس بار حکومت نے ایک ایسا نفسیاتی کھیل کھیلا ہے جس کے اثرات مایوسی ، شکست خوردگی اور اہانت کے جذبے کے ساتھ مسلمانوں کی نفسیات پر مرتب ہوں گے۔ہولی سے کافی دنوں پہلے ہی یو پی میں مسجدوں کے خلاف منافرت کا ماحول پیدا کر دیا گیا تھا ۔ خاص طور سے سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے حوالے سےمساجد کے خلاف اکثریتی فرقے میں نفرت پھیلانے کی منظم منصوبہ بندی کی گئی ۔ ہولی کے قریب آتے ہی نفرت کا درجہ حرات اس قدر بڑھا دیا گیا کہ مسجدوں کی سکیورٹی کو لیکر مسلمانوں میں سخت تشویش پیدا ہو گئی ۔ہولی کے دوران مسجدوں کو سکیورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی ۔ پولیس جس طرح شر پسندوں کی زبان استعمال کر رہی تھی ، اس سے مسلمانوں کی تشویش میں اور اضافہ ہو گیا۔ اس درمیان پولیس انتظامیہ نے مسجدوں کے ذمہ داروں پر یہ دباؤ بنانا شروع کیا کہ ہولی کے دوران مسجدوں کو رنگوں سے بچانے کے لیے ان کو پلاسٹک کے ترپالوں سے ڈھک دیا جائے ۔ مسجدوں کو ترپالوں سے ڈھکے جانے کے حکومتی فیصلے سے پہلے مسلمانوں سے نہ تو کوئی مشورہ کیا گیا اور نہ ہی ان کو اعتماد میں لیا گیا ۔ہو لی سے صرف دو تین دن پہلے یو پی کی سینکڑوں مسجدوں کو پلاسٹک کے ترپالوں سے ڈھک دیا گیا ۔

ان میں مغربی یو پی کی مساجد سب سے زیادہ ہیں ۔ شاہجہاں پور میں ساٹھ سے زیادہ مسجدوں کو پلاسٹک کے ترپالوں سے ڈھکا گیا ۔یو پی کے تقریباً  سبھی شہروں میں نماز جمعہ کے وقت میں تبدیلی کرائی گئی ۔ نماز جمعہ دو بجے کے بعد ادا کی گئی۔ہولی کی آڑ میں مسجد کو ڈھکے جانے کی ایسی غیر قانونی روایت کی بنیاد پڑ گئی ہے جس کا استعمال اب ہر ہولی یا اس طرح کے تہوار کے دوران لا اینڈ آڈر کے نام پر کیا جائے گا۔ہولی کے موقع پر سنبھل کی مسجدوں کو خاص طور سے نشانہ بنایا گیا ۔سنبھل کی شاہی جامع مسجد  کے علاوہ  ایک رات والی مسجد ، گول مسجد ،اناروالی مسجد ، کھجور والی مسجد ، گردوارا روڈ مسجد کو پوری طرح سے پلاسٹک شیٹ سے ڈھک دیا گیا ۔مسجدوں کو ڈھکنے کے بعد علاقے میں پولیس کی طرف سے خوف و ہراس کو ماحول پیدا کیا گیا اور مسلم مخالف شر پسند عناصر کو کھلی چھوٹ دی گئی ۔ہولی سے پہلے سنبھل کے سر کل افسر انوج چودھری کا نفرت انگیز بیان اور وزیر اعلیٰ کی طرف سے اس کی تائید کو میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے منظم طریقے سے پھیلایا گیا۔ پولیس انتظامیہ کی طرف سے مسلم کمیونٹی کو یہ پیغام دیا گیا کہ مسجدوں کو رنگوں سے بچانے کا ایک ہی طریقے ہے کہ ان کو پلاسٹک کے ترپالوں سے ڈھک دیا جائے۔ پولیس انتظامیہ نے مسلمانوں کو سوچنے سمجھنے کا وقت ہی نہیں دیا۔پولیس انتظامیہ نے یہ سارا کام دھونس اور خوف کی بنیاد پر کیا ۔ظاہر ہے پولیس کو یہ سارے احکامات ’ اوپر ‘ سے مل رہے تھے ۔

سنبھل کی شاہی جامع مسجد 

ہولی کو محبت اور بھائی چارے کا تہوار کہا جاتا ہے لیکن اس بار کی ہولی اکثریتی فرقے کی طرف سےمسلم اقلیت پر دھونس جمانے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کی گئی ۔تہواروں کے دوران لا اینڈ آڈر کو قائم رکھنے کی تمام تر ذمہ داری مقامی پولیس انتظامیہ کی ہوتی ہے۔یہ پولیس کی قانونی ذامہ داری تھی  کہ ہولی کے دوران مسجدوں کو شر پسند عناصر کی پہنچ سے دور رکھا جائے ۔اس پہلے جمعہ کے دن پڑنے والی ہولی کے دوران کبھی مسجد کو اس طرح سے ڈھکے جانے کا دباؤ نہیں بنایا گیا ۔حکومت کی اس کارروائی نے کئی سوالوں کو جنم دئے ہیں ۔اتنے بڑے پیمانے پر مسجدوں کو ایک مخصوص طریقے سے ڈھکنے کے پیچھے منشا کیا ہے ؟ کیا اس تجربے کو اب ہر ہولی یا تہوار کے موقع پر دہرایا جائے گا ؟ کیا پولیس مسجدوں کی حفاظت کی اپنی قانونی ذمہ دارای سے دست بردار ہو گئی ہے؟ کیا اس نے شر پسند عناصر کے سامنے ہتھیار ڈال دئے ہیں یا خود ان سے مل گئی ہے ؟ اور سب سے بڑا سوال یہ کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ پلاسٹک کی تر پالوں کو شر پسند عناصر آگ لگانے کی کوشش نہیں کریں گے ۔ جس سے بڑے پیمانے پر مسجد اور اس کےآس پاس کے علاقوں میں آگ زنی کا خطرہ ہے۔حکومت کی ذمہ داری شرپسندوں کو پر کارروائی کرنا ہے نہ کہ ان کی پشت پناہی کرنا ۔ یو پی میں مسجدوں کو ترپالوں سے ڈھکنے کی جس روایت کی شروعات کی گئی ہے وہ نہ صرف آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوششوں کا ایک بھی حصہ ہے ۔