ہندو لڑکی اور مسلم لڑکے  کو سیکورٹی فراہم کرنے سے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا انکار

 مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے  مسلم لڑکے اور ہندوی لڑکی کے درمیان شادی کو مسلم پرسنل لا کے تحت ناجائز اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے پولیس سیکورٹی دینے سے انکار کر دیا

نئی دہلی ،30مئی :۔

مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے آج ایک انوکھا تبصرہ کر کے ایک بین مذاہب جوڑے کو سیکورٹی فراہم کرانے سے انکار کر دیا ۔معاملہ ایک ہندو لڑکی اور مسلم لڑکے کا تھا ۔جہاں انہوں نے کورٹ میں عرضی دے کر اپنے خاندان والوں سے پولیس سیکورٹی کا مطالبہ کیا تھا مگر مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے پولیس سیکورٹی  فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ 27 مارچ 2024 کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ جبل پور نے جسٹس گرپال سنگھ اہلووالیہ کی صدارت میں عرضی پر اہم فیصلہ دیا۔  جسٹس گرپال سنگھ اہلووالیا نے کہا کہ ایک مسلم لڑکے اور ہندو لڑکی کے درمیان شادی کو مسلم پرسنل لا کے تحت ایک بے قاعدہ (یا فاسد) شادی تصور کیا جائے گا، چاہے انہوں نے اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت شادی کی ہو۔ ہائی کورٹ نے پیر (27 مئی 2024) کو اپنے حکم میں کہا، "مسلم پرسنل لا کے مطابق، کسی مسلمان لڑکے کی کسی ایسی لڑکی سے شادی جو بت پرست یا آتش پرست ہو، جائز شادی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر شادی اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے، تب بھی اس شادی کو درست نہیں سمجھا جائے گا، اسے ایک فاسد (فصد) شادی سمجھا جائے گا۔

عرضی گزار نے آئین ہند کے دفعہ 226 کے تحت پولیس سیکورٹی اور دیگر راحت کا مطالبہ کیا تھا ۔  جوڑے نے عدالت میں عرضی داخل کر کے اپنے خاندان کے لوگوں سے سیکورٹی کا مطالبہ کیا جو کہ ان کی شادی کے خلاف تھے۔ انہوں نے اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت شادی رجسٹریشن افسر کے سامنے حاضر ہونے کے لئے پولیس سیکورٹی کی بھی مانگ کی اور یہ یقینی بنانے کامطالبہ کیا کہ عرضی گزار کے خلاف مبینہ طور پر اغوا یا متعلقہ جرائم کے لئے مجرمانہ معاملہ درج نہیں کیا جائے گا۔

عرضی گزار نے سپریم کورٹ کے لتا سنگھ بنام اتر پردیش ریاست کے معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے پولیس سیکورٹی کا مطالبہ کیا تھا جس نے مذہب یا ذات کی پرواہ کئے بغیر بالغوں کو شادی کے حق کو منظوری دی تھی۔ہائی کورٹ نے کہا، "جو شادی پرسنل لاء کے تحت درست نہیں ہے وہ اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت بھی درست نہیں ہو سکتی۔ اسپیشل میرج ایکٹ کے سیکشن 4 کے مطابق شادی اسی وقت ہوسکتی ہے جب دونوں میں سے ایک دوسرے کا مذہب قبول کرے۔ ہائی کورٹ نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ شادی کے بغیر (لیو ان ریلیشن شپ میں) ساتھ نہیں رہنا چاہتے اور نہ ہی ہندو لڑکی اسلام قبول کرنا چاہتی ہے۔

واضح رہے کہ اس  جوڑے میں لڑکی ہندو اور لڑکا مسلمان تھا یہی وجہ ہے کہ عدالت نےمسلم  پرسنل لا کے تحت معاملے پر غور کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مسلم قانون کے تحت  مسلم لڑکے کا ہندو لڑکی کے ساتھ شادی غیر قانونی ہے۔ لہذا یہ جوڑا پولیس سیکورٹی کا حقدار نہیں تھا۔اس لئے عدالت نے کسی بھی طرح کی سیکورٹی فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔