ہندو توتنظیموں کا ہماچل میں وقف بورڈ اور مساجد کے خلاف احتجاج
حکومت کو 5 اکتوبر کو آنے والے سنجولی مسجد معاملے میں فیصلہ میں مثبت موقف اختیار کرنے کا انتباہ
نئی دہلی ،29 ستمبر :۔
ہندوتو تنظیموں کی جانب سے ہماچل پردیش میں مسلمانوں اور مساجد کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ گزشتہ روز ہفتہ کو دیو بھومی سنگھرش سمیتی کی قیادت میں تمام اضلاع میں احتجاج کیا گیا ار مسلمانوں کے خلاف نعرے بازی کی گئی ۔ اس دوران ہندوتو تنظیم نے حکومت کو آئندہ پانچ اکتوبر کو سنجولی مسجد کے تعلق سے آنے والےفیصلے میں مثبت موقف اختیار کرنے کا انتباہ دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سینکڑوں کی تعداد میں بھگوا تنظیموں نے ہفتہ کو ہماچل پردیش کے متعدد اضلاع میں دیو بھومی سنگھرش سمیتی کے زیراہتمام ایک ریلی نکالی اور وقف بورڈ کے خاتمے اور ریاست میں تارکین وطن کی شناختی دستاویزات کی تصدیق کا مطالبہ کیا۔ اس تنظیم نے مختلف مسائل پر ریاست گیر مظاہروں کا مطالبہ کیا تھا۔
دیو بھومی سنگھرش سمیتی ضلع کے صدر سرجیت سنگھ اور بجرنگ دل ضلع کے صدر آشیش شرما کی قیادت میں ایک جلوس نکالا گیا جس میں بہت سے لوگوں نے شرکت کی۔ وہ زعفرانی جھنڈے لہرا رہے تھے اور ان کے ہاتھوں میں بینرز تھے۔ شہر میں امن و امان برقرار رکھنے کیلئے بڑی تعداد میں پولیس اہلکار تعینات کیے گئے جبکہ اقلیتی برادری کے ارکان کی دکانیں بند کر دی گئیں۔
دیو بھومی سنگھرش سمیتی کے رہنماؤں نے مقامی انتظامیہ کو ایک میمورنڈم پیش کیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ وقف بورڈ کو ختم کیا جائے اور تارکین وطن کی شناختی دستاویزات کی چھان بین کی جائے۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے تنظیم کے رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ ہماچل پردیش میں تارکین وطن کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کی تجویز کو 2 اکتوبر کو ریاست بھر میں ہونے والے گرام سبھا اجلاسوں میں منظور کیا جائے۔ دیو بھومی سنگھرش سمیتی رہنماؤں نے حکومت کو خبردار کیا کہ وہ اس معاملے کو ہلکے سے نہ لے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو درست دستاویزات کے بغیر ریاست میں رہنے والے بیرونی لوگوں کی مدد کرنے کے بجائے ہندوؤں کو پرامن طریقہ سے زندگی گزارنے میں مدد کرنی چاہیے۔
دیو بھومی سنگھرش سمیتی کے کنوینر بھارت بھوشن نے کہا کہ ریاست کے 16 شہروں میں کمیٹی کے بینر تلے مظاہرے کیے گئے۔ اس کا مقصد حکومت کو جگانا ہے کہ وہ سنجولی کی متنازعہ غیر قانونی مسجد پر دوہرا موقف اختیار نہ کرے۔ انہوں نے حکومت کو انتباہ دیا کہ یہ تنازع قانون کے مطابق طے ہونا چاہیے اور حکومت اور انتظامیہ 5 اکتوبر کو فیصلے تک اس پر مثبت موقف اپنائے۔