ہندوستان کے قانون ’آئی پی سی ‘میں تبدیلی باعث تشویش
جرائم سے متعلق نئے قوانین کے نفاذ پر جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر کا اظہار تشویش
نئی دہلی، یکم جولائی:۔
مرکزی حکومت کی جانب سے موجودہ تعزیری اور فوجداری قوانین کو ختم کرکے اس کی جگہ آج یعنی یکم جولائی سے نئے قوانین کا نفاذ ہو گیا ہے۔مگر مرکز کے اس فیصلے پر اپوزیشن جماعت کے علاوہ متعدد عوامی تنظیموں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”حکومت نے فوجداری قانون’ انڈین پینل کوڈ ‘ ( آئی پی سی ) اور ’ کریمنل پروسیچر کوڈ ( سی آر پی سی ) کی جگہ نئے قوانین ’ بھارتیہ نیائے سنہیتا ‘ ( بی این ایس ) اور’ بھارتیہ ناگرک سرکشا سنہیتا ( بی این ایس ایس ) کو یکم جولائی 2024 سے نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو معاملے یکم جولائی 2024 سے پہلے درج کئے گئے ہیں ، وہ پرانے قانون کے تحت حل کئے جائیں گے جبکہ اس کے بعد درج ہونے والے مقدمات نئے قوانین کے تحت آئیں گے۔ یعنی فوجداری مقدموں کے لئے دو متوازی نظام ہوں گے۔ اس سے قانونی عمل میں پیچیدگیاں پیدا ہوجائیں گی اورعدلیہ جو پہلے سے ہی کثرتِ مقدمات کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، اس پر مزید بوجھ بڑھے گا۔ اس سے کنفیوزن پیدا ہوگا اور انصاف ملنے میں تاخیر ہوگی۔ اس لئے جماعت چاہتی ہے کہ موجودہ قوانین ( آئی پی سی ، سی آر پی سی اور ایویڈینس ایکٹ ) میں ناگزیر ترامیم کرکے ان کی خامیاں دور کرلی جائیں اور انہیں نافذ العمل بنادیا جائے ، یہ کسی قانون کو از سر نو تیار کرنے سے زیادہ بہتر ہوگا“۔
پروفیسر سلیم نے کہا کہ ” ان نئے قوانین میں کئی مسائل ہیں۔ انہیں انتہائی متنازع طریقے سے منظور کروایا گیا تھا۔ یہ منظوری ایسے وقت میں ہوئی تھی جب دسمبر 2023 میں اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ کی بڑی تعداد کو معطل کردیا گیا تھا۔ اسی دوران برائے نام بحث کے بعد انہیں منظور کرلیا گیا۔ ہم کسی بھی نوآبادیاتی قوانین کو بدلنے کی مثبت کوشش کی حمایت کرتے ہیں ، لیکن سمجھنے والی بات یہ ہے کہ ہم پولیس اور سیکورٹی ایجنسیوں کو شہریوں کے سامنے جوابدہ بنائے بغیر حقیقی استعماریت کا خاتمہ نہیں کرسکتے “۔
پروفیسر سلیم نے مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ ” بھلے ہی سرکار پرانے بغاوت کے قانون کو ختم کرنے کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن اس کی جگہ ایک نیا زیادہ سخت سیکشن ” بی این ایس کی دفعہ 152“ پیش کیا گیا۔ پرانے قانون کی جگہ یہ نیا سیکشن سیکورٹی خدشات کی آڑ میں اختلاف رائے اور اظہار رائے کی آزادی کو متاثر کرتا ہے۔ اس میں جھوٹے مقدمات کو درج کرنے پر پولیس افسران کو جوابدہ ٹھہرانے کی کوئی شق موجود نہیں ہے۔ نئے قانون کے تحت ایسے جرائم جن کی سزا 3 سے 7 سال کی قید ہوسکتی ہے، ان کی ایف آئی آر درج کرنے کو پولیس کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس سے بدعنوانی کو فروغ ملے گا اور پسماندہ طبقات کے لیے ایف آئی آر درج کرانے میں دشواری ہوسکتی ہے۔ پولیس اب 60 سے 90 دنوں کی مدت کے دوران کسی بھی وقت 15 دنوں تک اپنی تحویل میں رکھنے کی گزارش کرسکتی ہے۔ اتنے دنوں تک پولیس حراست میں رکھنے سے ، طاقت کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے جو شہریوں کی آزادی کو نقصان پہنچنے کا باعث بنے گا۔ اسی طرح یہ جو کہا گیا ہے کہ 2027 تک نظام عدل ( ایف آئی آر، فیصلے وغیرہ) کو ڈیجیٹائز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ ایک قابل ستائش قدم ہے، لیکن یہ قدم غریب اور پسماندہ طبقوں کے لئے جن کی ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے، مشکلیں کھڑی کر سکتا ہے۔