ہندوستان نے اسرائیل کو ہتھیار فراہم کئے ہیں ،سابق اسرائیلی سفیر کا ہنگامہ خیز دعویٰ

   ہندوستان جنگی جرائم کے مرتکب اسرائیل کو ہتھیار کیسے فراہم کر سکتا ہے؟حماس اور اسرائیل کی جنگ میں ہندوستان کے کردار  پر اٹھے سوال

نئی دہلی ،28 جون :۔

گزشتہ دنوں ایوان میں اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی  کے ذریعہ حلف برداری کے دوران جے فلسطین کے نعرے کے بعد شروع ہوا ہنگامہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ اس سلسلے میں  ان کے خلاف شکایت بھی کی گئی ہے اور کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے لیکن دریں اثنا  ان  سب کے درمیان سابق اسرائیلی سفیر نے ایسا دعویٰ کر دیا ہے جس نے ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔

ہندوستان میں اسرائیل کے سابق سفیر ڈینیئل کارمون نے اسرائیلی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’’ہندوستان نے حماس کے ساتھ جاری جنگ میں اسرائیل کی بڑی مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کر کے مدد کی ہے۔ انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ ہندوستانیوں نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ کارگل جنگ کے دوران اسرائیل ہندوستان کے ساتھ کھڑا تھا۔ درحقیقت اسرائیل ان ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اس دور میں کھل کر ہندوستان کا ساتھ دیا تھا اور ہتھیار فراہم کیے تھے۔ ہندوستانی اسے نہیں بھولتے اور شاید وہ احسان کا بدلہ چکا رہے ہیں۔‘‘

رپورٹ کے مطابق اب اس  سابق اسرائیلی سفارت کار کے اس حیرت انگیز انکشاف  پر ایک ہنگامہ برپا ہے اور ہندوستان کے کردار پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں ۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ہندوستان جنگی جرائم کے مرتکب اسرائیل کو ہتھیار کیسے فراہم کر سکتا ہے؟ تاہم یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اسرائیل اور حماس کی جنگ کے درمیان ہندوستان کی مدد کی بات کی جا رہی ہو۔اس سے قبل بھی اس طرح کی بحث ہو چکی ہے کہ ہندوستان اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے جو ہندوستان کی قدیم روایت کے خلاف ہے۔گزشتہ دنوں 6 جون کو قدس نیوز نیٹ ورک نے ایک ویڈیو جاری کیاتھا جس میں اسرائیل کے جنگی طیاروں کی طرف سے گرائے گئے میزائل کی باقیات کو دکھایا گیا تھاجب اسرائیل کی جانب سے نوصیرات پناہ گزین کیمپ میں اقوام متحدہ کی پناہ گاہ پر بمباری کی گئی تھی۔ ہتھیاروں کےالجھے ہوئے حصوں پر واضح طور پر “میڈ ان انڈیا” کے لیبل کو نشانزد کیا گیا تھا۔جس کے بعد یہ سوال بڑے پیمانے پر کئے گئے تھے کہ کیا واقعی ہندوستان نے حماس کے خلاف جنگ میں اسرائیل کو ہتھیار فراہم کئے ہیں۔ اب اسرائیل کے سابق سفیر کے دعوے نے مزید تنازعہ کھڑا کر دیا ہے اور ہندوستان کے کردار پر سوال کھڑے کرنے والوں کے موقف کی حمایت کی ہے۔