ہندوتو کی جانب بی جے پی کے بڑھتے قدم ،سیکولر جماعتوں کی آواز بے اثر
اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ کا نفاذاور وقف ترمیمی بل کومشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے حکومت کی تجاویز کے ساتھ منظوری دی
نئی دہلی ،27 جنوری:۔
2014 میں مرکز میں اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی نے ہندوؤں کو متحد کرنے کیلئے مسلم مخالف جتنے بھی وعدے کئے تھے دھیرے دھیرے وہ تمام وعدے مکمل کرتی جا رہی ہے اور سیکولرزم کا دعویٰ کرنے والی تمام جماعتیں اپنی پالیسیوں اور ایجنڈوں میں بی جے پی کو روکنے میں نا کام ہیں ۔رام مندر کی تعمیر سے لے کر طلاق ثلاثہ ،یکساں سول کوڈ اور اب وقف ترمیمی بل جیسے تمام مسلم مخالف وعدوں کو کامیابی کے ساتھ تکمیل تک پہنچا رہی ہے۔مسلمانوں کی تمام تر مخالفتیں اور احتجاج بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں ۔مسلمانوں کی حمایت کا دم بھرنے والی سیکورلر پارٹیاں بھی مسلمانوں کے معاملے میں موثر قدم اٹھانے میں نا کام ثابت ہوئی ہیں۔
آج27 جنوری 2025 کو بی جے پی نے اپنے ہندوتو ایجنڈے میں شامل دو انتہائی اہم فیصلے لئے ہیں ۔ایک، اترا کھنڈ میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اترا کھنڈ یکساں سول کوڈ نافذ کرنے والی ملک کی پہلی ریاست بن گئی ہے۔اترا کھنڈ سے بی جے پی نے ملک میں یکساں سول کوڈ کی شروعات کی ہے۔ اب دیگر بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستیں مثلا آسام وغیرہ بھی اس جانب قدم اٹھائیں گی جو پہلے ہی مسلم مخالف اقدامات کرنے میں سر گرم رہی ہیں۔
دوسرا اہم فیصلہ وقف ترمیمی بل کے تعلق سے ہے جہاں مرکزی حکومت کے ذریعہ پیش کئے گئے وقف ترمیمی بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نےمعمولی ترامیم کے ساتھ منظوری دے دی ہے۔ایک لمبے عرصے تک چلی جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ اور بحث و مباحثہ کا کوئی حاصل نظر نہیں آیا۔’وقف (ترمیمی) بل 2024‘ پر تبادلہ خیال کر رہی جے پی سی نے برسراقتدار بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے اراکین کے ذریعہ مجوزہ سبھی ترامیم کو منظوری د ے دی جبکہ کمیٹی نے اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ کے ذریعہ پیش کردہ تجاویز کو خارج کر دیا ۔جس پر اپوزیشن کی جانب سے ناراضگی کا اظہار کیا گیا ہے لیکن جے پی سی نے اپوزیشن کے اراکین کو اس پورے بحث میں کبھی خاطر میں نہیں لایا تو اب ان کی ناراضگی سے کیا فرق پڑتا ہے۔جے پی سی کے اجلاس کے دوران کتنے تنازعات سامنے آئے، ہاتھا پائی تک کی نوبت آئی ،اپوزیشن کے اراکین نے جے پی سی کے چیئر پرسن جگدمبیکا پال پر تانا شاہی اور منمانی کا بھی الزام عائد کیا ،اصول و ضوابط کو بھی نظر انداز کرنے کے الزامات لگائے اور لوک سبھا اسپیکر کو خط بھی لکھا لیکن یہ تمام تر اعتراضات کو یکسر نظر انداز کر کے حکومت کی منشا کے مطابق وقف ترمیمی بل کے مسودہ کو 14 ترامیم کے ساتھ منظوری دے دی گئی۔
بی جے پی ہندوتو ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سب سے پہلے مسلمانوں کے ووٹ کو بے وقعت اور غیر موثر کیا،اب چاہے مسلمان ووٹ دیں یا نہ دیں اس کے لیئے ہندوتو ایجنڈا ہی کافی ہے ۔ اس جانب بی جے پی کی کامیابی کو دیکھ کر سیکولر جماعتوں نے بھی مسلمانوں کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا جس کا اثر یہ ہوا کہ بی جے پی کا ہندوتو مزید مضبوط ہوتا گیا اور اسی کے ساتھ اپوزیشن کی آواز بھی بے اثر ہوتی گئی ۔ اور ایسا صرف مسلمانوں کے تعلق سے ہی ہے جبکہ کسانوں کے خلاف لائے گئے تین زرعی قوانین کو یہی بی جے پی حکومت واپس لینے پر مجبور ہوئی تھی۔ کیونکہ اس کا مسلمانوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ مگر مسلم مخالفت اقدامات میں حکومت اپنے ایجنڈے کے تحت مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔ مسلمانوں کے مسلسل احتجاج مخالفت اور اعتراض سے اس کو کوئی سروکار نہیں ہے،اس کے لئے ہندوتو کا ایجنڈہ ہی کافی ہے۔