ہم نے اپنی 85 سالہ زندگی میں اتنے برے حالات کبھی نہیں دیکھے

 جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشدمدنی نے پہلگام میں دہشت گردانہ حملہ کے دوران سیکورٹی کی خامی پر سوال اٹھائے

نئی دہلی، 4مئی :۔

جمعیةعلماءہند کی مجلس عاملہ کے دو روزہ اجلاس کے خاتمہ سے فورابعد آج یہاں صدردفترکے مدنی ہال میں منعقد ایک پرہجوم پریس کانفرنس خطاب کرتے ہوئے مولانامدنی نے انتہائی دردبھری آوازمیں کہاکہ ہم نے اپنی85سالہ زندگی میں ملک میں اتنے برے حالات کبھی نہیں دیکھے، جیساکہ اب ہے، انہوں نے کسی لاگ لپیٹ کے بغیر کہا کہ ارباب اقتدارکی کرسی جس پتھر پر ٹکی ہوئی ہے وہ نفرت ہے ان کا بس ایک ہی نظریہ اوراصول ہے کہ نفرتیں پیداکرو عوام کو مذہب کی بنیادپر تقسیم کرواورآسانی سے حکومت بنالو افسوسناک سچائی یہ ہے کہ حکومت ایساکوئی کام نہیں کرنا چاہتی جس سے ملک کے عوام کو صبروسکون حاصل ہولوگوں کو نوکریاں اورروزگارملے، کاروبارکے وسائل پیداہوں یا عوام کے معیارزندگی میں کوئی بہتری آئے، مولانا مدنی نے کہا کہ آج ملک میں جس طرح کے حالات ہیں اسے دیکھ کر ہم ہی نہیں ہمارے غیر مسلم برادران بھی دکھ محسوس کرتے ہیں، ہر معاملہ کو مذہب سے جوڑکر نفرت کی تشہیر آج کی سیاست کا معمول بن کر رہ گیا ہے، پہلگام دہشت گردانہ حملہ کو لیکر پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی بے گناہ کا قتل سخت گناہ ہے،چاہے وہ بلی ہی کیوں نہ ہو، اورجولوگ ایساکرتے ہیں وہ انسان نہیں ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم ہر طرح کے ظلم کی وہ کسی بھی شکل میں ہومذمت کرتے ہیں، دہشت گردوں کے گھروں پر بلڈوزرکارروائی کو لیکرجب کچھ لوگوں نے سوال کیا تو مولانا مدنی نے کہا کہ اگر وہ گھر واقعی دہشت گردوں کے تھے توہم اس میں کچھ بھی برامحسوس نہیں کرتے اس کارروائی کو بہتر سمجھتے ہیں لیکن اب محض شک کی بنیادپر کسی بے گناہ کے گھر کو ملبہ کا ڈھیربنادیا گیا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی انصاف پسند شخص اسے اچھا تصورنہیں کرسکتا، انہوں نے آگے کہا کہ کشمیر کے ایک ایسے سیاحتی مقام پر جہاں اس روزدو، تین ہزارسے زیادہ سیلانی جمع تھے کسی سیکورٹی کا نظم نہ ہونااپنے آپ میں ایک عجیب بات ہے۔

ایک بڑاسوال یہ بھی ہے کہ جہاں چپے چپے پر فوج اوربی ایس ایف کے جوان تعینات ہیں دہشت گرد اس سیاحتی مقام پرآسانی سے پہنچ کیسے گئے؟ اورقتل وغارت گری کرکے چلے کیسے گئے؟یہ سوال پہلے دن سے ملک میں اٹھ رہاہے مگر اب تک اس کا کوئی جواب نہیں ملاہے، انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات تویہ ہے یہ دہشت گردانہ حملہ کے بعد بھی ڈیڑھ گھنٹہ تک پولس یافوج کے لوگ وہاں نہیں پہنچے مقامی لوگوں نے متاثرین کی مددکی یہاں تک کہ اپنی جان پر کھیل کر زخمیوں کو اسپتال پہنچایا، کیا یہ سیکورٹی کی خامی نہیں ہے؟ ایک اورسوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ملک اتحاد اور پیارومحبت سے آگے بڑھتااورترقی کرتاہے اس لئے ملک میں پیارومحبت کی حکومت چاہئے، نفرت کی حکومت نہیں، نفرت کی سیاست ملک کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے، اوربدقسمتی سے ہمارے ملک کو نفرت کے جس راستہ پر لگادیاگیا ہے اگر روکا نہ گیا تو مسلمانوں کے لئے ہی نہیں ہر شہری کے لئے یہاں سانس لینا مشکل ہوجائے گا، وقت ترمیمی قانون کے حوالہ سے کئے گئے متعدد سوالات کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم وقف قانون میں ترمیم کو مذہب میں دخل اندازی سمجھتے ہیں، جو ترمیمات کی گئی ہیں اور پرانے ضابطوں کو جس طرح ختم کیا گیا ہے اس سے صاف لگتاہے کہ حکومت ہمارے اوقاف کو ہڑپ لینا چاہتی ہے اس سوال پر کہ اس کے خلاف سڑکوں پر احتجاج ہونا چاہئے یانہیں مولانامدنی نے کہا کہ ہماری لڑائی کسی فرد یا ملک کے عوام سے نہیں حکومت سے ہے جو ہمارے مذہبی امورمیں صریحا دخل دے رہی ہے، ہم کسی مسئلہ کو لیکر سڑکوں پر اترنے کو مفید نہیں سمجھتے کوئی ہمیں اچھاسمجھے یا برا، کوئی فرق نہیں پڑتاکہ ہمارے بزرگوں نے کبھی ایسانہیں کیا اس لئے ہم بھی اس چیز کو اچھانہیں سمجھتے ۔

انہوں نے کہا کہ نئے وقف قانون کو لیکر پر امن احتجاج ہونا چاہئے اورملک بھر میں جگہ جگہ ایسا ہوبھی رہاہے جمعیۃ علما  ہند نے بھی اس کے خلاف تین جلسہ کئے جن میں لاکھوں کی تعدادمیں لوگوں نے شرکت کی لیکن کسی طرح کی کوئی بدامنی پیدا نہیں ہوئی،ہمیں قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہئے ہم امن پسند لوگ ہیں اورجو اختیارات ہمیں ہمارے ملک کے آئین اورقانون نے دیئے ہیں اس کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہمیں اپنے حق کے لئے احتجاج کرنا چاہئے ہم اس کے قائل ہیں، انہوں نے وضاحت کی کہ یہ عوام سے عوام کی لڑائی نہیں ہے بلکہ یہ لڑائی تواس حکومت سے ہے جو ہم سے ہمارادستوری اورمذہبی حق چھین لینا چاہتی ہے، حکومت کی طرف سے عدالت میں داخل کئے گئے حلف نامہ کے پس منظرمیں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے اس حلف نامہ کو جھوٹ اورغلط قراردیا اورکہا کہ عدلیہ کے فیصلہ عدل اورانصاف کے بنیادپر ہوتے ہیں اورہمیں یقین ہے کہ اس معاملہ میں سپریم کورٹ کا جو فیصلہ آئے گاوہ انصاف اورعدل کی سربلندی والا فیصلہ ہوگا، ایک اورسوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دنیا میں اسلام تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے اس لئے کچھ لوگ اس کی تصویرکو مسخ کرنے میں مصروف ہیں کچھ لوگ اسلام کا رشتہ دہشت گردی سے جوڑرہے ہیں، جو یقینا ایک سفید جھوٹ ہے اسلام میں کسی کو ناحق قتل کرنے سے منع ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس کے لئے سخت سزاکی وعید بھی آئی ہے پھر یہ کیسے کہاجاسکتاہے کہ اسلام دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرتاہے انہوں نے کہا کہ اسلام ایک سچااورامن وانصاف کا مذہب ہے اوراسی لئے دنیا بھرمیں لوگ تیزی سے اسلام قبول کررہے ہیں۔