ہمیں ملک کے موجودہ حالات سے خوفزدہ یا مایوس ہونے کی ضرورت نہیں
آنے والے انتخابات کے پیش نظر امیر جماعت اسلامی ہندسید سعادت اللہ حسینی چیلنجوں کا سامنا بحسن و خوبی کرنے کی اپیل کی
نئی دہلی،09فروری
ملک میں آئندہ دو ماہ بعد عام انتخابات ہونے والے ہیں اس سے قبل ملک کے حالات خاص طور پر مسلمانوں کے لئے کافی چیلنجز والے بنتے جا رہے ہیں ۔ان حالات میں مسلمانوں کے درمیان مایوسی اور تشویش کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ان حالات میں ملی تنظیموں نے مسلمانوں کے درمیان اس مایوسی کی صورت حال سے باہر نکلنے کی لئے اپیل کی جا رہی ہے اور نئے منصوبوں کے ساتھ میدان میں آنے کی اپیل کی جا رہی ہے ۔ معروف ملی تنظیم جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے اس سلسلے میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے مسلمانوں سے متعدد نکات پر عمل کرنے کی اپیل کی ہے ۔امیر جماعت نے کہا کہ ”آنے والے انتخابات کے تناظر میں ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے مسائل و چیلنجز روز بروز بڑھتے جارہے ہیں۔ فرقہ واریت اور تنگ سیاسی نظریات کے حامل افراد ہمارے ملک کی جمہوریت کو تباہ و برباد کر رہے ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں میں کافی غم و غصہ اور بے چینی پائی جاتی ہے۔ لیکن ہمیں ان حالات سے خوفزدہ یا مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ اس وقت عزم و ہمت سے کام لیا جائے اور ان چیلنجوں پر قابو پانے کے لئے مسلسل کام کیا جائے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو اس طرح کے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اس سے پہلے 1857 کی بغاوت سے لے کر ہندوستان کی آزادی تک، تقسیمِ وطن اور دیگر آزمائشی واقعات تاریخ کا حصہ رہے ہیں اور بفضلہ مسلمانوں نے ان تمام چیلنجوں کا سامنا بحسن و خوبی کیا اور ان پر قابو پایا“۔
محترم امیر جماعت نے مزید کہا کہ ” ہمیں اپنی طاقت سے آگاہ رہنا چاہئے، اس کی جڑیں ہمارے مذہب ، اس کی عظیم تعلیمات اور اصولوں میں پیوست ہیں۔ کسی بھی طرح کے جبر و استحصال کے خلاف ایک محافظ کے طور پر کام کرنا ہماری روایت رہی ہے۔ اسی لئے ہمیں آزمائشوں اور فتنوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ہمارے سامنے موجود ان چیلنجوں کا کوئی فوری حل نہیں ہے۔ اس کے لئے طویل مدتی حل تلاش کرنا ہوگا جس کے لئے ہمیں اپنے اثرو رسوخ کے دائرے میں تبدیلی لانی ہوگی۔ اس کے لئے میں کمیونٹی کے لئے چھ ایکشن پوائنٹس تجویز کررہا ہوں : ان میں پہلا یہ ہے کہ اپنے ہم وطنوں کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کیا جائے۔ مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں غیر مسلموں میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور اور اسلام کی حقیقی تصویر ان کے سامنے پیش کی جائے۔ دوسرا ہے امت مسلمہ کی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا۔ ان کی تعلیم، معیشت اور دیگر کمزوریوں کو دور کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے، بالخصوص ان کے اخلاقی کردار کو بہتر بناکر انہیں دین مبین پر عمل کرنے کا عادی بنایا جائے۔ تیسرا ہے ” خیر امت“ یعنی بہترین امت ہونے کا کردار ادا کرنا۔ چوتھا ہے تمام کمزوروں اور مظلوموں کو انصاف دلانے کے لئے اٹھ کھڑا ہونا۔ ہمیں ہر ظلم و استحصال کے خلاف مزاحمت کرنا ہے لیکن پرامن طریقے سے۔ پانچواں ہے سوشل میڈیا کی طاقت کو تعمیری مقاصد کے لئے استعمال کرنا۔ اپنی ناامیدی، خوف اور مایوسیوں کو ہوا دینے کے لئے ایک پلیٹ فارم کے طور پر اس کا استعمال نہ کیا جائے، بلکہ ملک کو درپیش مسائل سے آگاہی، اسلام کے بارے میں بیداری اور امت کو ہمت و حوصلہ کی فراہمی کے لئے اس کا استعمال ہو۔ چھٹی بات یہ ہے کہ آنے والے انتخابات ملک کے لئے بہت اہم ہیں۔ ہمیں پرامن طریقے پر ملک کے انصاف پسند لوگوں کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ لوگ الیکشن میں لازمی طور پر شرکت کریں اور اپنی ذمہ داریاں صحیح سمت میں ادا کریں۔ آئیے ہم مسائل سے بھرے اس وقت کو ایک نئے دور میں بدل کر اس کا آغاز کریں اوراپنے غم و غصے کو تعمیری توانائی میں تبدیل کرنے کا عزم کریں۔ یہ ہماری موجودہ حالت کو بہتر و پائیدار بنانے میں معاون و مددگار ثابت ہوگا۔