ہمیں ایران کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے،ایران کے ساتھ تاریخی رشتہ

 ایران پر امریکی حملے کے بعد مرکزی حکومت کی خاموشی پر  کانگریس نے  اٹھایا سوال

دعوت ویب ڈیسک

نئی دہلی ،23 جون :۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کے ایک ہفتے سے زیادہ گزر چکا ہے ۔یہ کشیدگی کم نہیں ہو رہی ہے ،دونوں طرف سے حملوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ دریں اثنا گزشتہ روز 22  جون کو امریکہ نے ایران کے ایٹمی اڈوں پر حملہ کرکے دنیا میں  کشیدگی میں مزیداضافہ کر دیاہے۔ اس حملے کی دنیا بھر میں مذمت کی جا رہی ہے۔ مگر مرکزی حکومت کا رویہ افسوسناک  ہے ۔کیونکہ ایران کے ساتھ ہمارے تاریخی اور ثقافتی تعلقات ہیں ۔جس کا تقاضہ تھا کہ ایران پر امریکی حملے کے بعد مرکزی حکومت کھل کر ایران کی حمایت کرتی مگر حکومت نے توقع اور روایت کے بر عکس خاموشی اختیار کی ہے ۔کانگریس نے  حکومت کے موقف پر سوال اٹھاتے ہوئے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔

کانگریس کے رکن پارلیمنٹ عمران مسعود نے کہا کہ ہمیں ایران کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ایران ہمارا پرانا دوست ہے۔ ایران کے ساتھ ہمارے تجارتی اور ثقافتی تعلقات ہیں۔ ایران کی جڑیں ہندوستان میں ہیں۔ اس لیے ہمیں ایران کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہونا چاہیے۔ ایران نے ہمیشہ ہماری ہر طرح سے حمایت کی ہے۔ اس لیے ہمیں اس مشکل وقت میں ایران کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔

عمران مسعود کا مزید کہنا تھا کہ ایران نے حملہ نہیں کیا، ایران پر حملہ ہوا۔ جب ایران نے کہا کہ تمام ایٹمی پروگرام بین الاقوامی ایجنسیوں کی نگرانی میں ہیں تو آپ آ کر تحقیقات کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر حملہ ہو رہا ہے تو یہ سراسر غنڈہ گردی ہے۔ اس غنڈہ گردی کے خلاف سب کو متحد ہو کر جواب دینا چاہیے۔ ایران نے ہمارے برے وقت میں ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا ہے اس لیے ہمیں مضبوطی سے ایران کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔

دوسری جانب کانگریس لیڈر اور راجستھان کے سابق سی ایم اشوک گہلوت نے کہا، "کانگریس نے آزادی سے پہلے بھی ہمیشہ انقلابی قدم اٹھائے ہیں۔ آزادی کے بعد بھی اس نے انقلابی قدم اٹھائے، ملک کو سوچ دی، دیکھو آج دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ ہے، جس میں امریکہ بھی اچانک میدان میں آ گیا اور ہندوستان کچھ کہنے کے قابل نہیں رہا۔

اشوک گہلوت نے مزید کہا کہ ناوابستہ تحریک اندرا گاندھی کے دور میں شروع ہوئی تھی، آج حکومت کی خارجہ پالیسی ایسی ہے کہ لوگ اسے سمجھنے سے قاصر ہیں، آپریشن سندور کے دوران کوئی ملک ہمارے ساتھ کیوں نہیں آیا؟ دو تین ممالک پاکستان میں شامل ہوئے، ہمارا دوست روس بھی خاموش ہوگیا، ہمارے ملک کی الگ شناخت ہے، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسے کیسے پورا کریں، اگر بھارت اسے پورا کرے تو دیگر ممالک کی ذمہ داری ہے کہ ہم اسے کیسے پورا کریں؟ اس وقت بھی ملک کی خارجہ پالیسی الجھی ہوئی ہے، آج بھی ملک کو کانگریس کی پالیسیوں کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ امریکہ کے ذریعہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کے بعد دنیا بھر کے متعدد ممالک نے امریکی حملے کی مذمت کی ہے اور اسے ایران کی خود مختاری پر حملہ قرار دیا ہے۔بلکہ خود امریکہ میں بڑے پیمانے پر امریکی مداخلت کی مخالفت کی جا رہی ہے اور لوگ سڑکوں پر اس جنگ میں امریکہ کی شمولیت کی مذمت کر رہے ہیں۔