ہمنتا بسوا سرما کا اسلاموفوبیا عروج پر،مسلمانوں کے خلاف انتہائی نفرت انگیز فرضی ویڈیو جاری
2026 اسمبلی انتخابات سے قبل انتہائی گھٹیا اور نفرت پر مبنی مسلم مکت آسام کا اے آئی ویڈیو ایکس پر شیئر کیا گیا ،چوطرفہ تنقید،سوشل میڈیا صارفین نے انتہائی بیمار اور خوفناک قرار دیا

دعوت ویب ڈیسک
نئی دہلی ،18 ستمبر :۔
آسام کی ہمنتا بسوا سرما حکومت اسلامو فوبیا کے انتہائی نچلی سطح پر پہنچ چکی ہے ۔نہ روزگار پر بات اور نہ ہی آسام کی ترقی پر گفتگو صرف مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی اور ہندوؤں میں خوف اور ڈر پیدا کرنا ہی ہمنتا بسوا سرما کا وطیرہ بن چکا ہے ۔2026ء کے آسام اسمبلی انتخابات سے قبل بی جے پی کی ریاستی یونٹ فرقہ وارانہ ماحول کو خراب کرنے اور ہندوؤں کو مسلمانوں کا خوف دکھانے میں مصروف ہو گئی ہے ۔ گزشتہ دنوں 15 ستمبر کو فرقہ وارانہ نوعیت کی اے آئی سے تیار شدہ ایک ویڈیو اپنے سوشل میڈیا ہینڈلز اورایکس پر جاری کیا ہے۔ یہ ویڈیو واضح طور پر اسلاموفوبیا پر مبنی ہے اور ’مسلم مکت بھارت اور مسلم مکت آسام کی بات کررہا ہے۔مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ مسلمانوں کے خلاف انتہائی گھٹیا اور نفرت انگیز طریقے سے نشانہ بنائے جانے کے ساتھ ساتھ اس میں آسا م کانگریس کے صدر گورو گوگوئی اور لوک سبھا میں اپوزیشن کے رہنما راہل گاندھی کو گھٹیا طریقے سے پاکستان کے ساتھ جوڑ دیا ہے ۔بنیادی طور پر اس فرضی ویڈیو میں آسام کو بی جے پی کے بغیر دکھایا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ آسام میں اگر بی جے پی کی حکومت نہیں ہوگی تو یہاں 90 فیصد مسلمانوں کی آبادی ہو جائے گی ۔سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو بی جے پی نے شیئر کیا ہے جس پر سیاسی اور سماجی شخصیات اور سوشل میڈیا صارفین شدید تنقیدیں کر رہے ہیں۔ اور الیکشن کمیشن کو بھی اس معاملے میں ٹیگ کیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ یہ ویڈیو ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب وزیراعظم نریندر مودی نے 14 ستمبر کو ہی آسام کے فرقہ وارانہ طور پر حساس علاقے درانگ کا دورہ کیا تھا، جہاں انہوں نے ایک بار پھر ’’غیر قانونی دراندازی‘‘ اور ’’سرحدی علاقوں میں آبادیاتی توازن بدلنے کی مبینہ کوششوں‘‘ کا ذکر کیا تھا۔
آسام بی جے پی جو ہیمنت بسوا شرما کی قیادت میں پہلے ہی فرقہ وارانہ رنگ میں رنگ گئی ہے ۔آئے دن مسلمانوں کے خلاف ان کا بیان سرخیوں میں رہتا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس دن وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیان نہ دیں ان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کا دن گزرتا ہے ۔ اس ویڈیو کا عنوان ہے: ”بی جے پی کے بغیر آسام ۔‘‘ اس میں دکھایا گیا ہے کہ ٹوپی پہنے مرد اور برقع پوش خواتین آسام کی مختلف جگہوں مثلاً چائے کے باغات، گوہاٹی ایئرپورٹ، گوہاٹی اِکو لینڈ، گوہاٹی رنگ گھر وغیرہ میں نظر آ رہے ہیں۔ ویڈیو میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ غیر قانونی تارکینِ وطن سرکاری زمین پر قبضہ کر رہے ہیں۔ ویڈیو میں یہ انتباہ بھی شامل ہے کہ آسام میںمسلمانوں کی آبادی بہت جلد ۹۰؍ فیصد ہو جائے گی۔اس کے علاوہ ویڈیو میں بیف کو قانونی قرار دینے کے خدشے کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ جس کے ساتھ ایک ٹوپی پہنے شخص کو گوشت کاٹتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اسی دوران اے آئی سے تیار کی گئی تصاویر میں آسام کانگریس کے صدر اور رکن پارلیمان گورو گوگوئی اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کو ’’پاکستان سے جڑی ہوئی پارٹی‘‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ویڈیو کے اختتام پر یہ کیپشن آتا نظر ہےکہ’’اپنا ووٹ سوچ سمجھ کر دیں۔‘‘
مجوعی طور پر یہ ویڈیو آسام میں آئندہ سال اسمبلی انتخابات کے پیش نظر جاری کیا گیاہے ۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس ویڈیو پرشدید تنقیدیں ہو رہی ہیں۔ویڈیو پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، صحافی اندردیپ بھٹاچاریہ نے ایکس پر لکھا، "آسام بی جے پی جو کر رہی ہے اسے کرنے کے لیے آپ کو انتہائی گھٹیا سطح پر اترنا پڑے گا۔ موجودہ دور حکومت میں بھارت نے نفرت کی سیاست کو معمول بنا لیا ہے، لیکن اس معیار کے باوجود، آسام بی جے پی ووٹ مانگنے کے لیے جو کچھ کر رہی ہے وہ بیمار اور خوفناک ہے۔ تاریخ اسے یاد رکھے گی۔
معروف صحافی سانکیت اپادھیائے نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ بنگلہ دیش سے مسلمان آسام میں داخل ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے، کیا بی جے پی کی آسام یونٹ نے مودی حکومت سے سوال کیا ہے؟ اگر دراندازوں کی وجہ سے آبادیاتی تبدیلیاں ہو رہی ہیں تو بین الاقوامی سرحد کی ذمہ داری مرکزی حکومت کی ایجنسی کی ہے۔گیارہ برسوں سے بی جے پی کی حکومت ہے ۔ انہوں نے ایسے نفرت انگیز پیغامات ٹویٹ کر مودی حکومت سے سوال کیوں نہیں کیا؟سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری تو مودی حکومت کی ہے ۔