ہماچل پردیش: ہندو شدت پسندوں کاگؤ کشی  کا الزام  جانچ میں نکلا غلط

 گائے کی نہیں بلکہ بھینس کی کی گئی تھی قربانی،جاوید کی دکان لوٹنے والے شدت پسندوں ہندؤں کا الزام  نکلا جھوٹا

نئی دہلی ،22 جون :

ہماچل پردیش کے ناہن میں گزشتہ دنوں شدت پسند ہندوؤں نے گؤ کشی کا الزام لگا کر  جس جاوید نامی مسلم نوجوان کی تین دکانیں لوٹ لی تھیں ۔اب پولیس جانچ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس دن گؤ کشی نہیں ہوئی تھی یعنی کسی ممنوعہ جانور کی قربانی نہیں ہوئی تھی بلکہ بھیس کی قربانی کی گئی تھی جس کی سرکاری طور پر منظوری حاصل ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں 19 جون کو ہندو تنظیموں نے پولیس کی موجودگی میں ہماچل پردیش کے ناہن میں جاوید کی ریڈی میڈ گارمنٹس کی دکان پر حملہ کیا۔ دکان سے سامان نکال کر پھینک دیا۔جاوید نے واٹس ایپ سٹیٹس پر قربانی کی تصاویر پوسٹ کی تھیں۔ الزام ہے کہ وہ مویشی ذبح کر رہا تھا۔جبکہ آج جانچ کے بعد اتر پردیش شاملی کی پولیس نے بتایا کہ وہ ممنوعہ جانور نہیں تھا بلکہ بھینس کی قربانی کی گئی تھی۔ایس پی نے پریس کو بتایا کہ جاوید کے ذریعہ تصویر اپلوڈ کی گئی بہت دردناک ضرور تھی ۔اس لئے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے معاملے میں کیس درج کیا گیا ہےاور فوری طور پر اس کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ جاوید سہارنپور (یوپی) کا رہنے والا ہےہماچل پردیش میں  دکان چلاتا ہے۔ ہندو شدت پسندوں نے اعلان کیا ہے کہ اسے ہماچل  میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ پولیس جاوید کی تلاش کر رہی ہے۔دریں اثنا ہندو تنظیموں نے دکانوں کے مالکان کو متنبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر مسلمانوں کو کرائے پر دی گئی دکانیں خالی کردیں۔انجمن اسلامیہ کمیٹی کا کہنا ہے کہ ہندو شدت پسندوں کے انتباہ کے بعد ناہن سے16 دکاندار نقل مکانی کر چکے ہیں۔

سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہے ویڈیو کے بعد اب صارفین سوال کر رہے ہیں کہ جھوٹی افواہ پھیلا کر جاوید کی دکان لوٹنے والوں کے خلاف کیا اب پولیس کارروائی کرے گی ۔جب لوگ پولیس کیموجودگی میں دکان لوٹ رہے تھے اور پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔