ہماچل پردیش میں ہندوتو شر پسندوں کی شر انگیزی جاری ،مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی مہم
متعدد مقامات پر خود مسلمانوں نے دکانیں خالی کر دیں ،سکھو حکومت کی سست رویہ پر چوطرفہ تنقید کے بعد کانگریس بیدار ہوئی،عمران پرتاپگڑھی نے کانگریس اعلیٰ قیادت سے ملاقات کر کے معاملے سے آگاہ کیا
نئی دہلی،20ستمبر :۔
ہماچل پردیش ایک پر امن اور مذہبی آہنگی کی علمبردار ریاست مانی جاتی رہی ہے لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے ملک بھر میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ہندوتو شدت پسند تنظیموں کی نفرت انگیز مہم نے یہاں بھی ماحول خراب کر دیا ہے۔شملہ کی سنجولی مسجد کے خلاف ہندوتو تنظیموں کی شروع ہوئی نفرت کی تحریک اب دھیرے دھیرے پورے ہماچل میں پھیل چکی ہے۔حیرت انگیز طور پر ہماچل میں کانگریس کی حکومت کے محبت کے دعوے کے باوجود ہندوتو تنظیموں کی شر انگیزیاں مسلسل جاری ہیں۔خود کانگریس کے ریاستی وزیر بھی مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بی جے پی رہنماؤں کی زبان بول رہے ہیں ۔اس شر انگیز پر کنٹرول نہ کرپانے میں ہماچل کی کانگریس حکومت کی خوب تنقید ہوئی اور کانگریس کے دعوے پر سوال اٹھائے گئے۔اب جب معاملہ ہاتھ سے نکلتا ہوا نظر آیا تو کانگریس رہنما سر گرم ہوئے ہیں ۔ وہیں دوسری جانب ہندوتو تنظیمیں بھی مسلمانوں کے معاشی اور اقتصادی بائیکاٹ کے لئے اب گھر گھر مہم چلا رہی ہیں۔باقاعدہ پمفلٹ تقسیم کر کے مسلمانوں کے دکانوں اور ٹھیلوں سے سامان نہ خریدنے کی اپیل کی جا رہی ہے۔اس کا اثر ہے کہ خوف اور ہراس کے عالم میں ہمیر پور میں اچانک مسلمانوں نے اپنا کاروبار سمیٹ کر دکانیں بند کر دی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق شملہ میں پیش آئے حالیہ واقعات کے تعلق سے کانگریس رکن پارلیمنٹ عمران پرتاپ گڑھی کی قیادت میں مختلف مساجد کے ذمہ داران اور شہریوں نے کانگریس جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے دوران ہماچل پردیش میں مسجد سے متعلق ہوئے تنازعہ کی مکمل معلومات اور حقیقت عمران پرتاپ گڑھی نے کے سی وینوگوپال کو دی۔
اس میٹنگ میں کانگریس جنرل سکریٹری وینوگوپال نے معاملے کو بغور سنا اور ہماچل پردیش کے وزیر اعلیٰ سکھوندر سنگھ سکھو سے فون پر بات کی۔ اس ٹیلی فونک گفتگو میں انھوں نے اس طرح کے واقعات کو روکنے کی ہدایت دی۔ اس میٹنگ کے بعد کانگریس رکن پارلیمنٹ عمران پرتاپ گڑھی نے کہا کہ کانگریس پارٹی باہمی ہم آہنگی کے لیے پرعزم ہے اور ہمارے لیڈر راہل گاندھی جی کے ’محبت‘ کے نعرے کے ساتھ انصاف کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے اور کسی بھی قیمت پر بی جے پی کی حمایت یافتہ عوام کے ارادوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
وہیں دوسری جانب کانگریس حکومت کی سستی اور ناکام مینجمنٹ کی وجہ سے شر پسندوں کے حوصلے بلند ہیں ۔جہاں انہوں نے شملہ کے بعد کلو اور منڈی اور پالم پور کی مساجد کے خلاف احتجاج شروع کیا ہے اور غیر قانونی تعمیر کا حوالہ دے کر انہدام کا مطالبہ کر رہے ہیں وہیں دوسری جانب یہ تنظیمیں اب عام ہندوؤں کے گھروں تک نفرت کا پمفلٹ تقسیم کررہے ہیں ۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایجنڈا چلانے والے ہندو انتہا پسندوں نے یہ صریح فرقہ وارانہ اور تفرقہ انگیز پوسٹر گھر گھر تقسیم کرنا شروع کر دیے ہیں۔دیو بھومی جاگرن منچ نامی شدت پسند تنظیم کے نام سے گھر گھر ایک پمفلٹ تقسیم کیا جا رہا ہے جس میں ہندوؤں سے مسلمانوں کی اقتصادی اور معاشی بائیکاٹ کی اپیل کی جا رہی ہے۔پمفلٹ میں اپیل کی گئی ہے کہ وہ کسی باہر کے شخص کو دکان کرایہ پر نہ دیں اور نہ ہی باہر سے آئے پینٹر ،مستری سیلون اور دکانوں سے کام نہ کرائیں اور نہ کسی طرح کا لین دین کریں۔کسی مسلم درزی سے کپڑے نہ سلوائیں صرف ہندو ٹیلر سے ہی سلوائیں ،کھانے پینے اور دیگر ضرورت کا سامان صرف ہندو دکانداروں سے ہی خریدیں۔
ہندو تنظیموں کی اس زمینی سطح پر نفرت کی مہم کا اثر بھی نظر آنے لگا ہے۔ اس میں عام ہندو بھی خوف اور ڈر کی وجہ سے اپنے مسلم کرایہ داروں کو مکان خالی کرانے پر مجبور ہو رہا ہے۔باہر سے آئے روز ی روٹی کی تلاش میں متعدد افراد کو ان کے مالکان نے ایک ماہ کے اندر دکان اور مکان خالی کرنے کا انتباہ دے دیا ہے۔ یہاں تک کہ جو لوگ اس سارے معاملے میں غیر جانبدار ہیں وہ بھی کسی قسم کے ہنگامے کے خوف سے مسلمانوں سے دوری اختیار کرنے لگے ہیں ۔دریں اثنا ہمیر پور میں متعدد مسلمانوں نے اچانک دکانیں خالی بھی کر دیں۔
مساجد سے متعلق تنازعہ کے درمیان ہمیر پور کے گاندھی چوک پر مسلمانوں نے اچانک اپنی دکانیں خالی کر دیں، جس کی وجہ سے پورے شہر میں بحث کا ماحول ہے۔ بتا دیں کہ پچھلے کچھ سالوں سے گاندھی چوک کے قریب ایک بڑے ہال میں مسلمان سستا سامان بیچنے کا کاروبار کر رہے تھے، لیکن اچانک یہ تاجر اپنا سارا سامان باندھ کر رات گئے چلے گئے۔تاہم معلومات کے مطابق دکان کے مالک سریش ڈوگرا کا کہنا ہے کہ مسلمانوں نے خود دکان خالی کر دی ہے۔مسلمانوں کے خلاف یہ تمام نفرت انگیز سر گرمیاں کانگریس کی حکمرانی والی ریاست ہماچل میں ہو رہی ہیں ۔