ہماچل پردیش: شدت پسندوں کی ہنگامہ آرائی کے بعد اسکول نے عید تقریب کا فیصلہ واپس لیا
پرائیویٹ اسکول نے عید سے پہلے طلباء سے اچھے کپڑے اور کھانے پینے کی اشیا ء لانے کی ہدایت دی تھی،شدت پسند دیو بھومی سنگھرش سمیتی کے احتجاج کی دھمکی کے بعد اسکول نےفیصلہ واپس لیا

نئی دہلی،25 مارچ :۔
یوں تو ملک میں جمہوریت اور سیکولرزم کا بول بالا ہے لیکن حقیقی معنوں میں زمین پر اس کے بر عکس نظر آتا ہے۔ایک ہی ملک ہے مگر قانون دو طرح سے کام کررہا ہے۔اگر اسکول یا یونیور سٹی میں انتظامیہ سیکورٹی کی بنیاد پر ہولی منانے یا دیوالی کی تقریب کے انعقاد کو منع کر دے تو سیاسی ایوانوں میں بھونچال آ جاتا ہے ،اور اس کے لئے عدالتیں بھی تیار کھڑی ہوتی ہیں وہیں اسکولوں میں صرف عید کی معمولی تقریب کا اعلان بھر سے ہی شدت پسندوں کے پیٹ میں درد ہونے لگتا ہے اور حکومت خود آگے بڑھ کر ان کے مطالبات کو عملی جامہ پہنانےمیں تاخیر نہیں کرتی اور یہاں سب کچھ قانون کی روشنی میں ہوتا ہے۔
حالیہ دنوں میں علی گڑھ مسلم یونیور سٹی میں ہولی کی تقریب پر پابندی اس کی تازہ مثال ہے ۔ کس طرح سیاست دانوں اور شدت پسندوں کے سامنے انتظامیہ کو جھکنا پڑا تھا۔مگر وہیں ہماچل کے ایک پرائیوٹ اسکول نے جب طلبا سے عید سے پہلے نئےکپڑے پہن کر آنے کی اپیل کی تو شدت پسند ہندو تنظیموں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا اور ایسا دباؤ بنایا کہ کانگریس کی سکھویندر حکومت بھی خاموش رہی اور اسکول کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔
رپورٹ کے مطابق ہماچل پردیش کی راجدھانی شملہ میں ایک پرائیویٹ اسکول نے سوموار کو اپنا یہ فیصلہ واپس لے لیا، جس میں طلباء سے عید الفطر سے پہلے خوشیاں منانے کے لیے اچھے کپڑے پہننے اور کھانے پینے کی اشیاء ساتھ لانے کو کہا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق، مقامی دائیں بازو کی شدت پسندتنظیم دیو بھومی سنگھرش سمیتی نے تعلیمی ادارے کے باہر احتجاج مظاہرہ کی دھمکی دی تھی۔
شہر کے آکلینڈ ہاؤس اسکول نے عید الفطر منانے سے پہلے جمعۃ الوداع یعنی 28 مارچ کے لیے طلباء کو ہدایات جاری کی تھیں۔ دیو بھومی سنگھرش سمیتی نے کہا کہ یہ ہدایات سیکولرازم کے اصول کے خلاف ہیں اور انتباہ دیا کہ اگر فیصلہ واپس نہیں لیا گیا تو وہ اسکول کا گھیراؤ کریں گے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے۔
دیو بھومی سنگھرش سمیتی کے اراکین نے دعویٰ کیا کہ ‘بدقسمتی سے ہماچل پردیش میں اسلام کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے’ اور خبردار کیا کہ اگر فیصلہ واپس نہیں لیا گیا تو احتجاج شروع کیا جائے گا۔اسکول حکام نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا اور کہا کہ ‘ بچوں کی حفاظت اور بہبود ہماری اولین ترجیح ہے۔’
انہوں نے کہا، نرسری سے 2 تک کی جماعتوں کے لیے عید الفطر کا انعقاد بڑےطلباء کو ہندوستان کے ثقافتی تنوع کی تعریف کرنے میں مدد کرنے کی ان کی کوششوں کا ایک حصہ تھا، ٹھیک اسی طرح جیسے ہم ہولی، دیوالی اور کرسمس مناتے ہیں۔والدین کو بھیجے گئے پیغام میں کہا گیا، ‘اس کامقصد کلچرل ایجوکیشن کا تجربہ فراہم کرنا تھا، اس میں کوئی مذہبی رسم یا کوئی دوسرا پہلو شامل نہیں تھا اور شرکت پوری طرح سے رضاکارانہ تھی۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ حالیہ غلط بیانی اور ممکنہ خلل کے خدشات کے پیش نظر اسکول نے امن برقرار رکھنے اور ماحول کو محفوظ رکھنے کے لیے پروگرام کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے اور طلباء کو معمول کے مطابق یونیفارم میں اسکول آنا چاہیے۔
دریں اثنا، اس تنازعہ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے وزیر تعلیم روہت ٹھاکر نے کہا کہ ہماچل پردیش اپنی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور خیر سگالی کے لیے جانا جاتا ہے اور’ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ یہ برقرار رہے۔’انہوں نے کہا، ‘جس اسکول کا نام لیا جا رہا ہے وہ ایک معروف کانوینٹ ادارہ ہے اور یہ پیغام اسکول انتظامیہ نے صرف فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی نیت سے جاری کیا ہے۔
بعد میں جاری ایک بیان میں اسکول حکام نے کہا کہ آکلینڈ ہاؤس اسکول نے ہمیشہ ہولی، عید، دیوالی، گروپرب اور کرسمس جیسے سقافتی اور مذہبی تہواروں کو مذہبی اعمال کے طور پر نہیں بلکہ ہر طرح کے پس منظر سے آنے والے بچوں کے درمیان ہمدردی، سمجھ اور احترام کو فروغ دینے کے لیے بلکہ ہندوستان کے تکثیری جذبے کے تحت منایا ہے۔
اس میں کہا گیا،’یہ ہمارے نوٹس میں آیا ہے کہ کچھ افراد نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ہمارے ادارے کے بارے میں جھوٹے، گمراہ کن اور فرقہ وارانہ اشتعال انگیز پیغامات پوسٹ کیے ہیں اور ہم ان واقعات کو مذہبی پروپیگنڈہ کے طور پر غلط طریقے سے پیش کرنے کی کوششوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔’
بیان میں کہا گیا، ‘اس طرح کے اقدامات صرف سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتے ہیں اور عوام کو گمراہ کرتے ہیں اور ہم احترام کے ساتھ تمام افراد اور پلیٹ فارمز سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسی پوسٹ کو فوراً ہٹا دیں اور ادارہ جاتی اور ذاتی سلامتی سے سمجھوتہ کرنا بند کریں۔