ہماچل پردیش:محبت کی دکان چلانے والی کانگریس کی حکومت میں نفرت کا بازار گرم
سنجولی مسجد کے خلاف شروع ہوئی ہندوتو تنظیموں کی اشتعال انگیزی کانگریس کےنرم ہندوتو کے رویہ کے سبب منڈی کے بعد کلو کی جامع مسجد تک پہنچی
نئی دہلی ،15 ستمبر :۔
ہماچل پردیش ایک پر امن ریاست رہی ہے لیکن مرکز میں بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد اب کشمیر سے کنیا کماری تک مسلمانوں کے خلاف جو نفرت کی آگ لگائی گئی ہے وہ دھیرے دھیرے ملک کے تمام خطوں تک پہنچ گئی ہے ۔اب ملک کا کوئی بھی حصہ اس نفرت کی آگ سے اچھوتا نہیں رہا۔خواہ وہ کانگریس کی حکمرانی والی ریاست ہی کیوں نہ ہو۔ کانگریس بی جے پی کی نفرت کے خلاف محبت کی دکان چلانے کے بلند بالا دعوے کر رہی ہے لیکن کانگریس کی حکمرانی والی ریاست ہماچل پردیش میں پچھلے کچھ دنوں سے مساجد اور مسلمانوں کے خلاف جس طرح ہندوتو تنظیموں نے اشتعال انگیزی شروع کی ہے اس نے کانگریس اور راہل گاندھی کے دعوؤں کی ہوا نکال دی ہے۔
شملہ میں سنجولی مسجد کے خلاف شروع ہوئی ہندوتو تنظیموں کی اشتعال انگیزی پر آہستہ آہستہ پورے ہماچل میں پھیل رہی ہے۔حالانکہ سنجولی مسجد کے ذمہ داران نے ’غیر قانونی ‘حصے کو خودہٹانے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے تاکہ امن و امان بر قرار رہے مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسجد انتظامیہ کمیٹی کا یہ فیصلہ ہندوتوں تنظیموں کے لئے مزید اشتعال انگیزی میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے۔اس کارروائی سے حوصلہ پا کر انہوں نے منڈی میں واقع برسوں پرانی مسجد کے خلا ف احتجاج شروع کر دیا جہاں پولیس اور مظاہرین میں جھڑپ بھی ہوئی ۔یہ معاملہ یہی نہیں رکا ۔اب شدت پسند ہندو تنظیموں نے کلو میں واقع جامع مسجد کے خلاف بھی تحریک شروع کر دی ہے اور اس مسجد کو بھی غیر قانونی قرار دے کر انہدام ک امطالبہ کرتے ہوئے احتجاج شروع کر دیاہے۔
رپورٹ کے مطابق ہفتہ کے روز کلّو کے اکھاڑا بازار میں واقع جامع مسجد کو غیر قانونی طور پر تعمیر ہونے کا الزام عائد کر کے ہندوتو تنظیموں نے منظم طور پر احتجاج اور اشتعال انگیز شروع کر دی۔ہندو تنظیموں کےدعوے کے مطابق جامع مسجد کھادی ولیج انڈسٹریز کی زمین پر تعمیر کی گئی ہے۔ اس دوران ہندو تنظیموں نے جامع مسجد کی غیر قانونی تعمیر کے خلاف ہنومان مندر رام شیلا سے ڈھلپور چوک تک مظاہرہ کیا۔ بڑی تعداد میں ہندوتو تنظیموں کی کال پر جمع کارکنان صبح جمع ہوئے ۔ رام شیلا سے شروع ہوکر یہ ریلی جامع مسجد سے 10 میٹر دور اکھاڑا بازار پہنچی اس دوران مسلمانوں اور مسجد کے خلاف نعرے بازی کی گئی ،ہندو مذہبی نعرے لگائے گئے اور ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کیا گیا۔مظاہرین زمین پر بیٹھ گئے اور تقریباً 10 منٹ تک ہنومان چالیسہ کا ورد کرتے رہے۔ اس دوران پولیس فورس چوکس رہی۔ اس کے بعد مظاہرین اکھاڑہ بازار سے ہوتے ہوئے ڈھلپور چوک پہنچے۔ ایس ڈی ایم کلو وکاس شکلا کے ذریعے گورنر کو میمورنڈم سونپا گیا۔ہندو جاگرن منچ کے صدر کشتیج سود اور مہنت رام شرن داس نے کہا کہ اکھاڑہ بازار کی شری رام گلی میں بنائی گئی جامع مسجد غیر قانونی ہے۔خیال رہے کہ کلو ضلع میں کل گیارہ مساجد ہیں۔
خیال رہے کہ بتایا جاتا ہے کہ کلو کے اکھاڑا بازار میں واقع جامع مسجد 1890-91 میں تعمیر کی گئی تھی، اس وقت ایک منزل بنائی گئی تھی۔ لیکن جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہوتا گیا ضرورت کے مطابق مسجد میں توسیع بھی کی جاتی رہی ۔ 2017 تک تعمیر ہوئی اور اب یہاں چار منزلہ مسجد ہے۔ 2017 میں وشو ہندو پریشد اور دیو بھومی جاگرن منچ نے مسجد کی توسیع پر ہنگامہ کھڑا کیا تھا ۔
کلو کی جامع مسجد پر ہندوتو تنظیموں کی جانب سے جاری تنازع کے درمیان میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جامع مسجد کے امام نواب ہاشمی نے کہا کہ یہ زمین مسجد کی ہے اور اس کی تعمیر متعلقہ اداروں کی اجازت اور نقشہ پاس کرانے کے بعد کی گئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس مسجد کی تعمیر قانونی طور پر کی گئی ہے،یہاں غیر قانونی کوئی تعمیر نہیں ہے۔ جو لوگو ہنگامہ کر رہے ہیں وہ اپنی ذاتی دشمنی نکالنے کے لئے مسجد کو نشانہ بنا رہے ہیں جس طرح سنجولی مسجد کے معاملے میں ہوا۔
واضح رہے کہ شملہ واقع سنجولی مسجد کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ہندوتو تنظیموں نے جس شدت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے اس میں کسی حد تک کانگریس کا سست رویہ یا ہندوتو تنظیموں کو خاموش حمایت بھی شامل ہے۔کانگریس کے وزیر انیرودھ نے باقاعدہ طور پر مسجد کے خلاف اور ہندوتو تنظیموں کی حمایت میں اسمبلی میں تقریر کی جس کی وجہ سے معاملہ مزید خراب ہوا ور فرقہ وارہ کشیدگی بھڑک اٹھی۔جس پر چو طرفہ طور پر کانگریس پر تنقید کی گئی اور محبت کی دکان کے دعوے پر سوال کھڑے کئے گئے۔