ہماچل سنجولی مسجد تنازعہ:ہندوتو تنظیموں کی مراد پوری،تمام منزلوں کو توڑنے کا حکم
شملہ میونسپل کارپوریشن کورٹ کا فرمان،وقف بورڈ کورٹ میں درست کاغذات پیش کرنے میں نا کام

نئی دہلی ،04 مئی :۔
ہماچل پردیش کے شملہ میں واقع معروف سنجولی مسجد تنازعہ میں بالآخر ہندوتو تنظیموں کی مراد پوری ہوئی اور کارپوریشن کورٹ نے مسجد کے بقیہ حصوں یعنی تمام منزلوں کو منہد م کرنے کا فرمان جاری کر دیا ہے۔خیال رہے کہ اس مسجد کے خلاف ہندوتو تنظیمیں ہماچل میں مسلسل احتجاج کر رہی تھیں اور ایک لمبے عرصے تک یہ مسجد سرخیوں میں رہی پھر کورٹ کے حکم کے بعد بالائی منزلوں کو انتظامیہ نے خود توڑ دیا تھا ۔اب باقی بچی دو منزلوں پر بھی کورٹ نے سماعت کے بعد غیر قانونی اور بغیر اجازت تعمیر کا حوالہ دے کر منہدم کرنے کا حکم دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق شملہ میونسپل کارپوریشن کمشنر بھوپندر اتری کی کورٹ میں سماعت ہوئی جس کے بعد میونسپل کارپوریشن کمشنرنے مسجد کی تمام منزلوں کو منہدم کرنے کا حکم دیا ہے۔کارپوریشن کورٹ کا یہ فیصلہ یقیناً مسجد انتظامیہ اور وقف بورڈ کے لئے ایک جھٹکا ہے اور ہندوتو تنظیموں کے حق میں ہے۔
خیال رہے کہ وقف بورڈ کو ہفتہ کو مسجد کی زمین پر مالکانہ حق کے کاغذات کورٹ میں پیش کرنے کے ساتھ ہی مسجد کا نقشہ بھی عدالت میں پیش کرنا تھا لیکن کہا جا رہا ہے کہ وقف کے وکیل نہ تو درست کاغذات عدالت کے سامنے پیش کر سکے اور نہ ہی مضبوطی کے ساتھ اپنی بات ہی رکھ پائے۔
وقف بورڈ کے وکیل نے کہا کہ اس جگہ پر مسجد 1947 سے پہلے موجود تھی جسے گرا کر نہیں مسجد تعمیر کی گئی تھی۔اس سلسلے میں ضروری کاغذات وقف بورڈ کو پیش کرنا تھا لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ سنجولی کے مقامی رہائشی ایڈوکیٹ جگت پالنے نے کہا کہ میونسپل کارپوریشن کورٹ نے پوچھا کہ اگر مسجد 1947 سے پہلے موجود تھی تو پرانی مسجد کو گرانے اور نئی تعمیر کرنے کے لیے میونسپل کارپوریشن سے نقشہ سمیت ضروری اجازت کیوں نہیں لی گئی۔
ایک گھنٹے کی سماعت کے بعد کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا پھر دوسری میٹنگ میں میونسپل کارپوریشن کمشنر بھوپندر اتری نے اپنا فیصلہ سنایا ۔ عدالت نے کہا کہ اصولوں کو طاق پر رکھ کر پوری مسجد تعمیر کی گئی ۔ اس میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ پوری مسجد غیر قانوی ہے اور اسے منہدم کیا جانا چاہئے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال سنجولی مسجد کا تنازعہ سرخیوں میں رہا۔ پورے ہماچل میں ہندوتو تنظیموں نے مسجد کے خلاف مورچہ کھول دیا تھا اور مسجد کے انہدام پر مصر تھے۔ اس سلسلے میں ہماچل کی کانگریس حکومت کا رویہ بھی مایوس کن رہا اور وہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو روکنے اور مسلمانوں کے خلاف ہماچل میں نفرت کی سیاست پر لگام لگانے میں نا کام رہی تھی ۔