ہلدوانی تشدد معاملہ : پولیس پر تحقیقات کے نام پر مسلمانوں کو ہراسان کرنے کا الزام
متاثرہ علاقے میں پہنچی انڈیا ٹو مارو کی ٹیم کو مقامی خواتین نے بتایا کہ انکوائری کے نام پر پولیس گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کر رہی ہے اور خواتین کو بھی مارا پیٹا جا رہا ہے،خوف زدہ مسلمان بڑی تعداد میں اپنا گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور
مسیح الزماں
نئی دہلی ،13 فروری :۔
اترا کھنڈ کے ہلدوانی میں گزشتہ روز غیر قانونی تجاوزات ہٹانے کے نام پر مدرسہ اور مسجد کی انہدامی کارروائی کے بعد پیدا ہوا تشدد کی آگ اب تک گرچہ بجھتی نظر آ رہی ہے لیکن اس آگ کی تپش سے مسلمان اب بھی جھلس رہے ہیں ۔کشیدگی کم ہوئی ہے لیکن اب پولیس کی کارروائی کے بعد مسلمانوں میں خوف و ہراس کا ماحول ہے ۔لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہیں ۔پولیس انتظامیہ پر مقامی لوگوں نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس تحقیقات کے نام پر وہاں مسلمانوں کی جائیداد اوراملاک کو بے دریغ نقصان پہنچا رہی ہے۔گھروں میں جبراً داخل ہو کر توڑ پھوڑ کر رہی ہے ۔
انڈیا ٹو ماروں کے لئے مصیح الزماں نے متاثرہ علاقے میں پہنچ کا حالات کا جائزہ لیا ۔رپورٹ کے مطابق ہلدوانی کے ملک کے باغیچہ میں خاموشی ہے، انتظامیہ کی طرف سے گرائے گئے مدرسے کا ملبہ بکھرا ہوا ہے، میونسپل کارپوریشن ہلدوانی کی جلی ہوئی گاڑیوں کا ڈھیر ہے، گھروں پر تالے پڑے ہیں۔ وہاں صرف وہ لوگ رہ گئے ہیں جو کہیں نہیں جا سکتے، بوڑھے، معذور اور کچھ بچے۔
انڈیا ٹو مارو کی ٹیم نے بتایا کہ پولیس ہمیں کسی بھی مسلم اکثریتی علاقے میں جانے کی اجازت نہیں دے رہی ہے، سڑکوں پر پولیس کا سخت پہرہ ہے، کسی طرح ہم بھاگ کر ملک کے باغیچہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، جہاں کے مناظر میدان جنگ کا سا لگ رہے تھے۔
پولیس کے چھاپوں اور مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کی وجہ سے ملک کے باغ کے آس پاس کے گھروں سے تقریباً سبھی افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔ ایک دو گھروں سے بوڑھوں کے کھانسنے کی آوازیں آرہی ہیں، کچھ پتھریلی آنکھیں پردوں اور کھڑکیوں سے دور سے ہمیں دیکھ رہی ہیں۔
8 فروری کو اتراکھنڈ کے ہلدوانی میں ملک کا باغیچہ میں واقع مدرسہ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے منہدم کرنے کے خلاف احتجاج میں پولیس کی طرف سے طاقت کا استعمال کرنے کے بعد پھوٹ پڑے تشدد میں 5 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس تشدد میں کئی لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ زخمیوں میں عام لوگوں کے ساتھ پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
انڈیا ٹومارو سے بات کرتے ہوئے ایس ڈی ایم نینی تال پرمود کمار نے کہا کہ کرفیو میں کچھ وقت کے لیے نرمی کی گئی تھی تاکہ لوگ ضروری اشیاء خرید سکیں۔ بعض حساس (مسلم) علاقوں میں کرفیو جاری ہے لیکن اس بات کا خیال رکھا جا رہا ہے کہ انہیں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے، ماحول معمول کے مطابق ہو۔ اب تک 100 سے زائد افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
ملک کا باغیچہ کے علاقے میں موجود کچھ خاندانوں نے انڈیا ٹومارو کو بتایا کہ پولیس مسلمانوں کے گھروں میں توڑ پھوڑ کر رہی ہے۔ کچھ خاندانوں نے پولیس پر بربریت کا الزام لگایا۔ہم مدرسے کے ملبے اور جلی ہوئی گاڑیوں کی تصویریں لے رہے تھے کہ کچھ خواتین نے رونا شروع کر دیا اور اپنے درد کا اظہار کیا کہ پولیس انہیں کس طرح ہراساں کر رہی ہے۔ پوچھنے پر خواتین نے بتایا کہ پولیس نے تفتیش کے نام پر بہت سے مکانات اور عمارتوں میں توڑ پھوڑ کی ہے۔
کئی آٹوز کی ونڈ شیلڈز کو بری طرح نقصان پہنچا، مقامی خواتین کا کہنا تھا کہ "جہاں سے بھی پولیس گزری، وہاں کچھ بھی محفوظ نہیں رہا، کاریں ہوں، دکانیں ہوں، آٹو ہوں یا گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں، سب کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔
ایک اور خاتون نے روتے ہوئے کہا، ’’پولیس کل (ہفتہ) بڑی تعداد میں یہاں آئی اور سیڑھیوں کا استعمال کرتے ہوئے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی۔ جن گھروں میں کوئی مرد نہیں ملا وہاں خواتین اور لڑکیوں کو بھی لاٹھیوں سے مارا گیا، میرا بڑا بیٹا معذور ہے اس لیے میں اس کے ساتھ کہیں نہیں جا سکتی۔
شاہ رخ نامی ایک 30 سالہ نوجوان کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے، جس کی ماں نے انڈیا ٹومارو کو بتایا، “ہفتے کو سینکڑوں پولیس والے یہاں آئے، گھر میں گھس کر توڑ پھوڑ شروع کردی۔ لڑکیوں اور خواتین کو بھی لاٹھیوں سے پیٹا گیا۔
ملک کا باغ جہاں مدرسہ تھا، آس پاس کے گھروں کے تقریباً سبھی لوگ بھاگ گئے ہیں۔ گھروں کو تالے لگے ہوئے ہیں لیکن گھروں کے باہر کھڑی گاڑیوں، آٹوز، کاروں اور دو پہیہ گاڑیوں کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ وہاں سے کچھ فاصلے پر اپنے گھروں کے سامنے کھڑی خواتین نے بتایا کہ یہ ساری توڑ پھوڑ پولیس نےہفتہ کو کی تھی۔کئی خواتین نے پولیس پر الزام لگایا کہ ’’گھروں میں گھس کر سامان توڑنے کے علاوہ پولیس نے خواتین کو مارا پیٹا اور بدسلوکی کی۔‘‘
ایک مقامی خاتون نے انڈیا ٹومارو کو بتایا کہ آتش زنی میں باہر کے لوگ شامل تھے، جنہوں نے اپنے چہرے رومال اور کپڑوں سے ڈھانپ رکھے تھے۔ایک اور خاتون نے کہا، ’’ہم نے بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا جو یہاں کے نہیں تھے لیکن میونسپل گاڑیوں کو جلانے میں ملوث تھے لیکن پولیس اب آس پاس کے لوگوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور ہمیں ہراساں کر رہی ہے۔‘‘
پولیس تشدد کے خوف سے لوگ نقل مکانی پر مجبور
انڈیا ٹومارو سے بات کرتے ہوئے، بہت سے متاثرین کے اہل خانہ نے کہا کہ لوگ پولیس کی بربریت اور تشدد کی وجہ سے اپنے گھر چھوڑ کر رشتہ داروں یا دوسرے شہروں میں جا رہے ہیں۔
ایک خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ’’پولیس رات 2-3 بجے مسلمانوں کے گھروں پر چھاپہ مار رہی ہے اور لوگوں کو ہراساں کررہی ہے، جو ایسی حالت میں رہنا چاہتے ہیں‘‘۔ایک بوڑھی خاتون نے کہا کہ پولیس کی بربریت سے ہم سب پریشان ہیں، وہ ہمارے گھروں میں گھس کر گالیاں دیتے ہیں اور توڑ پھوڑ کرتے ہیں اور مارتے ہیں، اسی ڈر سے سب لوگ اس علاقے کو چھوڑ رہے ہیں۔
مسلم اکثریتی علاقوں کی سڑکیں سنسان، سڑکیں سنسان اور گھروں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ پولیس بھی گلیوں کے اندر گشت کر رہی ہے، اس لیے وہاں موجود اہل خانہ اپنے گھروں تک محدود ہیں۔ اہل خانہ کو جب بھی موقع ملتا ہے نقل مکانی کر رہے ہیں۔
مسلم علاقوں کی طرف جانے والی سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں اور اندر جانے پر پابندی ہے۔ اتوار کو میڈیا کے متاثرہ علاقے میں جانے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔
انڈیا ٹومارو کی ٹیم جب ملک کے باغ میں پہنچی تو وہاں کے مقامی لوگ پولیس کے خوف سے گھر چھوڑ چکے تھے یا جا رہے تھے۔ ملک کا باغیچہ کے آس پاس کے تقریباً تمام خاندان اپنے گھر چھوڑ چکے ہیں، باقی لوگوں کو چھوڑنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔کچھ خاندان جن میں چھوٹے بچے، بوڑھے یا معذور ہیں وہ اپنے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
اپنے آنسو پونچھتے ہوئے ایک بزرگ خاتون نے کہا، ’’ہم اپنے مدرسے اور مسجد کو بچانے کے لیے احتجاج کر رہے تھے، ہم پر لاٹھی چارج کیا گیا، ہم پر پتھراؤ کیا گیا، ہم پر گولیاں چلائی گئیں اور 5 لوگ مارے گئے ۔
خاتون نے کہا کہ آگ کس نے لگائی یہ تحقیقات کا معاملہ ہے اور گولی کس نے چلائی اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے۔ لیکن کوئی ایسے شخص کو فسادی کیسے کہہ سکتا ہے؟ تاہم انڈیا ٹومارو کی ٹیم نے پایا کہ ماحول میں خوف ہے اور لوگ گھروں تک محدود ہیں۔ پولیس اب تک 100 سے زائد افراد کو حراست میں لے چکی ہے۔
بشکریہ انڈیا ٹو مارو