ہلدوانی تشدد:جمعیۃ علماء ہند اور جماعت اسلامی کے مشترکہ وفد کی ڈی جی پی سے ملاقات
میمو رینڈم پیش کر کےمعصوم لوگوں کو گرفتار نہ کرنےاور خواتین و بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ
نئی دہلی،12فروری :۔
اترا کھنڈ کے ہلدوانی میں تشدد کے بعد حالات اب بھی کشیدہ ہیں۔خاص طور پر مسلم محلوں میں مسلمانوں کے اندر خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ملی اور سماجی تنظیموں نے حالات کو معمول پر لانے کی ہمہ جہت کوششیں شروع کر دی ہیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز جمعیۃ علمائے ہند اور جماعت اسلامی ہند کے مشترکہ وفد نے وہاں کا دورہ کیا اور حالات کا جائزہ لیا۔لوگوں کے درمیان پھیلی کشیدگی کو دور کرنے کی کوشش کی ۔ اس سلسلے میں مشترکہ وفد نے آج اترا کھنڈ کے ڈی جی پی ابھینو کمار سے اتراکھنڈ پولیس ہیڈکوارٹر دہرادون پہنچ کر ملاقات کی اور ہلدوانی میں ہوئے واقعہ کے تناظر میں ایک میمورنڈم سونپا۔ میمورنڈم میں بن بھول پورہ میں ’شوٹ ایٹ سائٹ‘ آرڈر اور پولیس کے ذریعہ پتھر بازی میں شمولیت کی سخت مذمت کی گئی اور متعدد شہریوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔
وفد کی جانب سے جاری ایک ریلیز میں کہا گیا کہ میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ جس نے بھی تشدد، خون خرابہ اور آگ زنی میں شرکت کی، ان کے خلاف سخت کارروائی ہو نی چاہیے، لیکن اس درمیان پولیس کے ذریعہ غیر قانونی راستہ اختیار کرنا اور بھی قابل مذمت ہے۔ بالخصوص ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس جیسے غیر مہلک متبادل کا انتخاب کرنے کی جگہ شوٹ ایٹ سائٹ کا آرڈر جاری کرنا شرمناک ہے۔ میمورنڈم میں یہ بھی کہا گیا کہ مابعد تشدد مسلم اقلیتی محلہ میں غیر ضروری تلاشی مہم اور خواتین و بچوں کو خوف زدہ کرنے کا عمل بھی غلط ہے۔
وفد نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس طرح کے اقدامات کی وجہ سے کئی مسلم خاندان نقل مکانی کر رہے ہیں۔ اس لیے ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ معصوم لوگوں کو گرفتار نہ کریں اور مسلم علاقوں میں خواتین و بچوں کو تحفظ فراہم کریں اور اعتماد کی بحالی پر کام کریں۔
مشترکہ وفد کا کہنا ہے کہ اس فساد میں جو افراد ہلاک ہوئے ہیں، وہ زیادہ تر معاشی طور پر پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ذمہ دار اور فکر مند شہری کی حیثیت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ ان خاندانوں کو ایک کروڑ روپے کا معاوضہ دیا جائے اور گھر کے کسی ایک فرد کو سرکاری نوکری دی جائے۔ میمورنڈم میں کہا گیا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران انسداد تجاوزات مہم میں ضابطہ شکنی کرتے ہوئے اچانک لوگوں کے گھر توڑے گئے، ایسا لگا کہ پولس قانونی کارروائی کے بجائے انتقامی کارروائی کر رہی ہے۔ ایسے حالات میں ہم ایک بار پھر آئین اور قانون کی پاسداری پر زور دیتے ہیں۔ بالخصوص ہندوستان کے متنوع معاشرے میں مذہبی مسائل کے تئیں جذباتی حساسیت کے پیش نظر ہم حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کوئی بھی ایسا قدم اٹھانے سے گریز کریں جو تناؤ کو ہوا دے سکے۔ افہام و تفہیم اور معاشرے کے ذمہ دار افراد کو اعتماد میں لے کر اگر کارروائی کی جاتی تو ہلدوانی میں ایسا سانحہ رونما نہیں ہوتا۔ بہرحال یہاں جو کچھ بھی ہوا ہے، ہم آپ کے ذریعہ سرکار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ عدالتی انکوائری کرائے۔ ہمیں پختہ یقین ہے کہ ان اقدامات کو اپنانے سے تناؤ کو کم کرنے، امن کو فروغ دینے اور حساس معاملے میں انصاف کو یقینی بنانے میں نمایاں مدد ملے گی۔
ملاقات کے بعد ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند مولانا حکیم الدین قاسمی نے بتایا کہ اس میمورنڈم کے بغور مطالعہ کے بعد ڈی جی پی نے یقین دلایا کہ ہم نے ہدایت جاری کر دی ہے کہ کسی بے قصور کو گرفتار نہیں کیا جائے، ضلع انتظامیہ کی طرف سے کوئی شکایت ہو تو آپ حضرات ڈائریکٹ مجھ سے رابطہ کریں اور بتائیں ہم وہاں معاملے کو دیکھیں گے۔ تقریباً ایک گھنٹے تک جاری اس ملاقات میں ڈی جی پی نے شفافیت کو یقینی بنانے پر زور دیا۔
مشترکہ وفد میں جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند، ملک معتصم خان، نائب امیر جماعت اسلامی ہند، شفیع مدنی نائب امیر جماعت اسلامی ہند، مولانا محمد عارف قاسمی صدر جمعیۃ علماء صوبہ اتراکھنڈ، مولانا قاری محمد ذاکر قاسمی سکریٹری جمعیۃ علماء یوپی، لئیق احمد خان اسسٹنٹ سکریٹری جماعت اسلامی ہند، مولانا غیور احمد قاسمی، آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند، مولانا شفیق احمد القاسمی مالیگانوی آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند، مولانا نسیم احمد قاسمی، جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ضلع ہریدوار اتراکھنڈ شامل تھے۔