ہلدوانی:جیل سےضمانت پر رہا ہونے والی خواتین نے جیل میں ہوئی ظلم کی داستان بیان کی
رہا ہونے والی مسلم خواتین نے جیل حکام پر جبری مشقت اور غیر انسانی سلوک کا الزام لگایا،بیماری کی حالت میں بھی بیت الخلا کی صفائی کرنے پر مجبور کیا گیا
نئی دہلی ،13 جنوری :۔
اترا کھنڈ کے ہلدوانی میں گزشتہ سال فروری میں ایک مسجد اور مدرسہ کے خلاف انہدامی کارروائی کے دوران تشدد پھوٹ پڑا۔اس تشدد کے بعد انتظامیہ کی جانب سے مقامی مسلمانوں کے خلاف جم کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔متعدد مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا جس میں خواتین بھی شامل تھیں ۔ایک لمبے عرصے تک جیل میں قید رہی مسلم خواتین حال ہی میں ضمانت پر رہا ہوئی ہیں ۔انہوں نے جیل میں گزانے دنوں کی تکالیف اور مشقتوں کا بیان کیا کہ کس طرح ان کے ساتھ جیل میں غیر انسانی سلوک کیا گیا۔چھ خواتین تقریباً سات ماہ کے بعد باہر آئی ہیں ۔ خواتین نے جیل حکام پر الزام لگایا ہے کہ وہ سات ماہ کی قید کے دوران انہیں بغیر معاوضہ مزدوری کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ضمانت پر رہا ہونے والی خواتین نے اپنا درد بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بیت الخلاء، فرش صاف کرنے اور دیگر کاموں کو انجام دینےپر مجبور کیا جاتا تھا جو ان کی ڈیوٹی میں شامل نہیں تھا۔
ان کے ساتھ ظلم کیا گیا جبری مشقت پر مجبور کیا گیا جو آئین کے مطابق بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ جیل کے قوانین واضح طور پر ایسے طریقوں سے منع کرتے ہیں، پھر بھی خواتین کا دعویٰ ہے کہ انہیں ذلت آمیز اور غیر انسانی حالات کا نشانہ بنایا گیا۔
واضح رہے کہ ہلدوانی تشدد 8 فروری 2024 کو بنبھول پورہ علاقے میں ایک مسجد اور مدرسہ کے انہدام کے بعد شروع ہوا تھا۔ حکومت نے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہدامی کارروائی کی جس کے بعد تشدد پھوٹ پڑا۔ جس کے نتیجے میں سات افراد ہلاک اور 150 سے زیادہ زخمی ہوئے۔
ان خواتین میں سے ایک ریشما، جو ذیابیطس اور گردے کے شدید انفیکشن میں مبتلا ہے، نے جیل میں اپنے علاج کو تکلیف دہ قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ میں اپنی صحت کے مسائل کے باوجود بیت الخلا صاف کرنے پر مجبور تھی۔ انہوں نے مجھے صرف میرے السر کے لیے درد کش دوائیں دیں اور جب میں نے صفائی نہ کرنے کی مجبوری بیان کی تو مجھے مارا پیٹا گیا۔
ایک اور خاتون سلمیٰ نے احتجاج کے دوران پولیس کی جانب سے اپنی تصویر دکھانے کے بعد اپنی گرفتاری کو یاد کیا۔ انہوں نے کہا کہ بغیر مقدمے کے انہیں مہینوں تک حراست میں رکھا گیا، انہوں نے جیل کی زندگی کو اپنی زندگی کا ا بدترین حصہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سیل نہیں تھا، بلکہ موت کا احساس تھا۔
خواتین نے جیل میں بنیاد ی سہولیات کے فقدان کا بھی ذکر کیا، انہوں نے کہا کہ "ہمیں دن میں دو وقت کا کھانا دیا جاتا تھا، اور رمضان میں افطار اور سحری کے لیے کچھ بچانا پڑتا تھا اور افطاری کا کوئی مناسب انتظام نہیں تھا،۔
ہلدوانی جیل کے حالات کو خوفناک قرار دیتے ہوئےے ایک بیوہ خاتون شہناز نے کہا کہ پتلے گدے، گندے کمبل، اور جبری مشقت صبح سویرے شروع ہوتی اور گھنٹوں تک جاری رہتی ہے۔ شہناز نے اس صورت حال کو غیر انسانی قرار دیتے ہوئے کہا، ’’ایسا لگا کہ وہ ہمارے ساتھ انسان نہیں جانوروں جیسا سلوک کر رہے ہیں۔‘‘
خواتین نے اپنی قانونی مدد کے لیے جمعیۃ علمائے ہند کا شکریہ ادا کیا۔ کہا ہم ان کی مدد کے بغیر باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ان تمام آزمائشوں اور انتظامیہ کی جبر کے باوجود خواتین انصاف کے حصول کیلئے پر عزم ہیں انہیں یقین ہے کہ عدالت سے انہیں انصاف ملے۔ایک متاثرہ خاتون سلمیٰ نے کہا کہ ہمارے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا گیا لیکن ہم بے قصور ہیں۔ ’’ہم صرف انصاف چاہتے ہیں۔‘‘