ہریانہ کھاپ اور کسان تنظیموں نے  مونو مانیسر کی گرفتاری کا مطالبہ کیا، نوح میں امن کی اپیل کی

نئی دہلی ،11اگست :۔

ہریانہ کے نوح  میں فرقہ وارانہ جھڑپوں کے بعد علاقے میں امن ہے مگر کشیدگی بر قرار ہے ۔سیکورٹی اہلکار بڑی تعداد میں تعینات ہیں ۔دریں اثنا حالیہ فرقہ وارانہ فسادات کے لئے ذمہ دار مانے جانے والے مونو مانیسر کے خلاف اب دوسرے طبقے سے بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں ۔متعدد   کسان  تنظیموں اور کھاپ پنچایتوں نے نوح علاقے میں امن کی اپیل کی ہے اور  مونو مانیسر کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔

31 جولائی کو مسلم اکثریتی نوح میں جھڑپوں میں چھ افراد مارے گئے تھے ۔ مرنے والوں میں دو ہوم گارڈ اور ایک مولوی شامل ہیں۔ مونو مانیسر، بجرنگ دل کا  ایک لیڈر  اس سال کے شروع میں دو مسلم نوجوان جنید اور ناصر کے قتل میں مطلوب  ہیں۔ افواہیں تھیں کہ مانیسر نوح کے مذہبی جلوس میں شامل ہوگا، جس نے مبینہ طور پر شہر میں فرقہ وارانہ تصادم کو جنم دیا جو بعد میں گروگرام اور دیگر علاقوں میں پھیل گیا۔

جھڑپوں کے سلسلے میں اب تک 113 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں اور 305 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس 106 افراد کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ کر رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق بدھ کے روز، ہریانہ کے کھاپ، کسان تنظیموں اور مذہبی رہنماؤں کے ایک بڑے اجتماع نے تشدد کی مذمت کے لیے حصار میں ایک ‘مہاپنچایت’ منعقد کی اور خطے میں امن اور ہم آہنگی کے لیے کئی قراردادیں منظور کیں۔ بھارتیہ کسان مزدور سنگھ کے زیر اہتمام اس مہاپنچائیت میں ہندو، مسلمان اور سکھوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں طے پایا کہ امن کی بحالی کے لیے تمام مذاہب کے لوگ مل کر کام کریں گے۔ حال ہی میں، مہندر گڑھ، ریواڑی اور جھجر اضلاع میں کچھ پنچایت سربراہوں کے ذریعہ لکھے گئے خطوط آن لائن منظر عام پر آئے۔

ان خطوط میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پنچایتوں نے مسلمان تاجروں کو اپنے گاؤں میں کاروبار کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ کسان یونینوں نے نوح میں فرقہ وارانہ تشدد سے نمٹنے کے لیے ہریانہ حکومت کی تنقید کی ہے، جبکہ کھاپ نے  بھی اسی طرح کے ملے جلے  ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ کچھ کھاپس نے مسلم تاجروں کے بائیکاٹ کی حمایت کی ہے، جب کہ دیگر نے تشدد کی مذمت کی ہے اور مانیسر کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔

کھاپ، بنیادی طور پر جاٹ برادری سے تعلق رکھتے ہیں، مانیسر کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی اپیل کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ مانیسر نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں اس نے نوح کے مذہبی جلوس میں شرکت کا دعویٰ کیا ہے اور اپنے حامیوں سے بڑی تعداد میں   آنے کی اپیل کی ہے۔ بعد ازاں  اسے  سوشل میڈیا پر دور رہنے کی تنبیہ کی گئی۔ مانیسر نے کہا کہ وہ وشو ہندو پریشد کے مشورے پر میٹنگ میں شریک نہیں ہوئے، کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ ان کی موجودگی سے علاقے میں کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ ہریانہ ریاستی پولیس کے سربراہ پی کے اگروال نے کہا کہ جھڑپوں میں مانیسر کے کردار کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی جائے گی۔